خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
اِنَّ اِبۡرٰہِیۡمَ لَحَلِیۡمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیۡبٌ ؎ اور اگر بندے کو خلیل فرمانا، اَوَّاہٌ مُّنِیْبٌ فرمانا وغیر ذالک محبت ہے تو یہاں ظَلُوْمًا جَہُوْلًا فرمانا یہ جانِ محبت ہے ۔ اس ظَلُوْمًا جَہُوْلًا کا لطف ان جانوں سے پوچھو جو اللہ کی عاشق ہیں۔ اس دشنام میں آج بھی ان کو کیا لذت مل رہی ہے ؎ جوابِ تلخ می زیبد لبِ لعلِ شکر خارا۶؍ ربیع الاوّل ۱۳۹۱ھ مطابق ۲؍مئی ۱۹۷۱ ء جنّتی ہونے کی علامت ارشاد فرمایا کہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ جو عشرۂ مبشرہ میں ہیں یعنی جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دے دی تھی کہ یہ جنّتی ہیں پھر بھی حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ پر جب کبھی غلبۂ خوف ہوتا تھا تو حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ جو صاحبُ السِّرتھے ان سے پوچھا کر تے تھے کہ ابو حذیفہ سچ بتلانا کہیں حضور صلی اللہ علیہ سلم نے مجھے منا فق تو نہیں بتایا تھا۔ اب یہ اعتراض پیدا ہو تا ہے کہ کیا حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت پر یقین نہیں تھا جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جنّتی ہونے کی خبر دے دی تو کیا وجہ ہے کہ نبی کی اس بشارت کے باوجود وہ خود کو منافق سمجھ رہے ہیں؟ کیا بشارتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کو یقین نہیں تھا؟ تو اس کا جواب میرے شیخ نے دیا تھا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہٗ کی اپنے نفس پر اس حد تک بدگمانی کہ اپنے ایمان تک پر شبہ کرنا یہ اس بشارت کا جز اور علامت ہے اس سے معلوم ہو گیا کہ دیکھو یہ ہیںجنّتی بندے جو اپنے نفس سے کس قدر بد گمان رہتے ہیں۔یہی علامت ان کے جنّتی ہونے کی ہے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہٗ کی اپنے نفس سے اس بدگمانی سے ان کا بشارت کا مصداق ہونا بدرجہ اولیٰ ثابت ہوگیا تاکہ اہلِ دنیا سمجھ جائیں کہ وہ لوگ جو جنّتی ہیں وہ اپنے نفس پر کس قدر بدگمانی رکھتے ہیں اور ------------------------------