خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
ایک علمِ عظیم ارشاد فرمایا کہ: وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی ﴿ۙ۴۰﴾ فَاِنَّ الۡجَنَّۃَ ہِیَ الۡمَاۡوٰی ﴿ؕ۴۱﴾؎ یعنی جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا یعنی جس کو یقین ہوگیا کہ ایک دن اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوکر حساب دینا ہے اور اپنے نفس کو گناہوں سے روکا تو اس کا ٹھکانہ جنّت ہے۔ آیت کی ترتیب بتارہی ہے کہ جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا ہے وہی اپنے نفس کو گناہوں سے روکتا ہے، اور جو گناہوں سے اپنے نفس کو روکتا ہے تو اس کا دوسرا انعام جنّت ہے۔ابو طالب کے لیےدعا کا قبول نہ ہونا عبدیتِ نبوت کا عروج ہے ارشاد فرمایا کہ ہدایت کے مسببِ حقیقی صرف اﷲ تعالیٰ ہیں۔ پیر صرف بہانہ ہوتا ہے ہدایت کا۔ ورنہ حقیقت میں ہدایت تو اﷲ تعالیٰ ہی دیتے ہیں اس لیے پیر کا عمر بھر ممنون تو رہنا ہوگا کہ وہی بہانہ ہے ہماری ہدایت کا، کیوں کہ جس دروازے سے نعمت ملتی ہے وہ دروازہ بھی قابل احترام ہوتا ہے، جو شخص واسطۂ نعمت کا احترام نہیں کرتا وہ دراصل نعمت کا احترام نہیں کرتا اور جو نعمت کا احترام نہیں کرتا اس کے دل میں منعم کا احترام نہیں مثلاً کوئی شخص آپ کو اپنے ملازم کے ذریعے حلوہ بھجوائے اور آپ ملازم کے ایک چانٹا لگائیں بجائے شکریہ کے تو وہ منعم کیا کہے گا یہ نالائق اس قابل نہیں کہ اس کو نعمت دی جائے، اگرچہ آپ نے منعم کی توہین تو نہیں کی لیکن واسطۂ نعمت کی توہین کی تو وہ منعم ہی کی توہین ہوتی ہے۔ پس ہدایت جب پیر کے ذریعے ملتی ہے تو پیر کا احترام و محبت جس دل میں نہیں اس کے دل میں دراصل اﷲ کی محبت و احترام نہیں ہے۔ غرض ہدایت کا واسطہ پیر کو سمجھنا چاہیے لیکن یہ عقیدہ نہ رکھے کہ پیر ہدایت دیتا ------------------------------