خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
عشقِ مجازی سے بچنے کا ایک عجیب و غریب مراقبہ جمعہ کو میں نے بیان کیا تھا کہ جن لوگوں کو حسینوں سے عشق بازی لڑاتے ہوئے ایک زمانہ ہوگیا مگر ابھی تک سچی توبہ نہیں کی، کبھی کبھی چوری چھپے کچھ حرام لذّت کی امپورٹنگ کی عادت پڑی ہوئی ہے تو میں نے کہا کہ دیکھ لو حسینوں کا انجام۔ اﷲ تعالیٰ نے مجھے ایک جغرافیہ، ایک فیچر عطا فرمایا کہ پورے عالم سے زیادہ نہیں صرف سو حسین منتخب کیے جائیں، پچاس حسین لڑکیاں پچاس حسین لڑکے۔ شیطان تو ان کے گُوموت کا سارا سسٹم چُھپا دیتا ہے اس لیے لوگ ان کے حُسن پر پاگل ہو رہے ہیں، ان پر پاگل ہونے والے بھی گُوخور ہیں۔ جو حسینوں کے پیشاب پاخانے کے مقامات سے مستفید ہوناچاہتا ہے آپ خود سوچئے کہ اس شخص کا کیا مقام ہے اور یہ شخص کس قدر نمک حرام ہے۔ بتاؤ اگر اسے دس دن کھانا نہ ملے تو دیکھنے کی طاقت رہے گی؟ تو جس کانمک کھاتے ہو اس کی مرضی کے خلاف کیوں چلتے ہو؟ حضرت سعدی شیرازی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ دمشق میں حُسن پرستی عام ہوگئی تھی، ہر آدمی ایک ایک معشوق لیے چمّا چاٹی کررہا تھا، اﷲ کا غضب نازل ہوا، بارش روک دی، غلّہ ختم ہوگیا، جب پندرہ دن کھانا نہیں ملا تو لوگوں نے ان عاشقوں سے پوچھا کہ میں اس وقت آپ کے لیے روٹی لاؤں یا آپ کا معشوق لاؤں؟ تو سب نے کہا کہ معشوقوں کے گالوں پر جھاڑو پھیرو، روٹی لاؤ، مجھے تو اتنی بھوک لگی ہوئی ہے کہ اب آنکھ سے نظر بھی نہیں آرہا۔ اس پر سعدی شیرازی نے فرمایا ؎ چناں قحط سالی شد اندر دمشق کہ یاراں فراموش کردند عشق دمشق میں ایسی قحط سالی ہوئی کہ یاروں نے عشق بازی بھلا دی۔ یاد رکھو! جوتوں کا انتظار مت کرو، جلد توبہ کرو، واﷲ! اﷲ کا عذاب جب آئے گا تو اس کے مقابلے میں جوتے کچھ نہیں، ایسا عذاب آتا ہے کہ بس کچھ نہ پوچھو۔ بڑے بڑے صحت مندوں کو میں نے دیکھا کہ سوکھ کے کانٹا ہوگئے، چار پائی سے لگ گئے۔