خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
میں اپنا فائدہ ہے کہ چندہ آتا ہے، لیکن صدقہ کے اور دوسرے طریقے نہیں بتائیں گے۔ مجھ سے ان شاء اﷲ وہ بھی سن لو گے کیوں کہ دین کی بات بتانا مقصود ہے چندہ ملے نہ ملے۔۲۹؍ ربیع الاوّل ۱۳۸۹ھ مطابق۱۵؍ جون ۱۹۶۹ء بروز اتوار اہل اللہ کے فہم اور ادب کی ایک مثال ارشاد فرمایا کہ میرے شیخ نے یہ قصّہ سنایا تھا۔ ایک بزرگ کو کسی نے ہدیہ میں چینی کی مسجد پیش کی اور عرض کیا کہ حضرت! کھائیے۔ مسجد کو توڑنا بے ادبی تھی۔ انہوں نے اپنے مریدین کو حکم دیا کہ لانا بھائی! ایک لوٹا پانی۔کبھی کبھی اللہ کے گھر کی صفائی کی جاتی ہے۔بس اس کو دھوتے گئے اور پیتے گئے۔ توڑنا لازم نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰیہ فہم عطا فرماتے ہیں اپنے خاص بندوں کو۔ کسی خشک مولوی کو ہر گز یہ ادب نہیں آسکتا تھا ہزار صغریٰ کبریٰ لگائے ۔ جس کے دل کو اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق نہ ہو اس کو یہ فہم نصیب نہیں ہوسکتی۔ کسی اللہ والے کی جوتیاں سیدھی کرنے سے یہ باتیں آتی ہیں۔علماء کے اُمرا سے میل جول کے مفاسد ارشاد فرمایا کہ فلاں مولوی صاحب نے ٹیلی فون پر بتایا کہ ایک جگہ پر بڑے بڑے آدمی موجود تھے، بینک کے ایک آفیسر نے پاکولا کی دعوت کردی، اگر اس وقت میں انکار کرتا کہ یہ آمدنی حرام ہے تو ایک مسلمان کی بے آبروئی ہوتی اس لیے مجبوراً پی لیا۔انہوں نے سوچا ہوگا کہ بعد میں استغفار کرلوں گا مسلمان کی آبرو بچانا بھی دین ہے۔ ان صاحب کا شہرہ دور دور ہوگیا ہے امرا سے بھی واسطہ رہتا ہے ایسے میں دین کی حفاظت مشکل ہو جاتی ہے۔شکر کرو کہ اللہ تعالیٰ نے بے نام و نشان رکھا ہے۔ اَلْعُلَمَاءُ اُمَنَاءُ الدِّیْنِ حَتّٰی لَمْ یُخَالِطِ الْاُمَرَاءَ یعنی علما دین کے امین ہیں جب تک کہ اُمرا سے اختلاط نہ کریں ۔ اس لیے اپنے بزرگوں کا قاعدہ تھا کہ اُمرا کے دروازے پر نہیں جاتے تھے بلکہ اُمرا ہی ان کے دروازے پر آتے تھے۔