خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
فکر کرے ۔میں اپنے شیخ کی کڑکڑاتی ہوئی سر دیوں میں مالش کر تا تھا اور بدن دبا تا تھا تو پسینے چھوٹ جاتے تھے حالاں کہ اس زمانے میں سرد ہوائیں چلتی تھیں بس یہ جذبہ تھا کہ کیسے اپنے شیخ کی جان پاک کو خوش کر دوں، جانے کس وقت دعا منہ سے نکل جائے۔ ایک دفعہ میرے شیخ پھولپور سے پانچ میل دور ایک مدرسہ کے جلسے میں گئے ہوئے تھے، رات بارہ بج گئے اور حضر ت کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا میں نے سوچا کہ حضرت رات کو بھوکے سوجائیں گے، میں نے حضرت سے پوچھا بھی نہیں کہ حضرت آپ کا کھانا پھولپور سے لے آؤں کیو ں کہ اگر پوچھتا تو حضرت منع کر دیتے کہ کوئی ضرورت نہیں اتنی تکلیف کر نے کی اس لیے میں نے پوچھا بھی نہیں اور چپکے سے سائیکل اٹھاکر پانچ میل پھولپور چل دیا راستے میں چوروں کا بھی خطرہ تھا لہٰذا لاٹھی ساتھ رکھ لی اور سوچا کہ اگر راستے میں مر بھی گیا تو کیا ہے ایک اﷲ والے کی خدمت میں مارا جاؤں گا شہید ہو جاؤں گا اورحضرت میرے لیے رو کر کچھ اﷲ سے کہہ دیں گے تو میرا کام بن جائےگا۔ میاں یہ محبت ایسی چیز ہے کہ جان کی بھی پروا نہیں رہتی محبت میں آدمی وہ کام کر گزرتا ہے کہ جو چار آدمی نہ کر سکیں۔ بس گُر کی بات یہی ہے کہ کسی اﷲ والے سے دل لگا لو اس پر فدا ہو جاؤ تو برسوں کا راستہ منٹوں میں طے ہو جاتا ہے ( معلوم ہوا کہ شیخ سے ہر خدمت کو پو چھنا بھی نہ چاہیے بلکہ سمجھ سے کام لے کر خود کر دے کہ شیخ کی جان پاک خوش ہو جائے۔ پوچھنے سے شیخ انکار کر دیتا ہے طالب کی تکلیف کے خیال سے)سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا امتحانِ عاشقی اورحق تعالیٰ کی قدردانی ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے امتحان کو بہت بڑا امتحان فرمایا۔ بیٹے کو چھری کے نیچے لٹانا کوئی معمولی کام نہیں ہے دراصل حق تعالیٰ کو اہلِ دنیا کو دکھانا تھا کہ ہمارے عاشقین ہماری محبت میں کیا کیا کرتے ہیں۔کبھی معشوق چاہتا ہے کہ دنیا والے دیکھیں کہ ہماری محبت میں کیا کیا ہوتا ہے۔ اﷲ کی محبت کا سارا کھیل اسی لیے ہے کہ دنیا والوں کو معلوم ہو جائے کہ اگر چہ ہمارے ان بندوں نے ہمیں دیکھا بھی نہیں لیکن بغیر دیکھےیہ ہم پر پروانوں کی طرح نثار ہو رہے ہیں کوئی آرے سے چیرا جا رہا ہے ، کوئی سر کٹا رہا ہے کوئی آگ میں کود رہا ہے کوئی بیٹے کو چھری کے نیچے لٹا رہا ہے یہ کس کی محبت کا نشہ