خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
۳۰؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۹۰ھ مطابق ۹؍ جولائی ۱۹۷۰ء مقامِ محبت ارشاد فرمایا کہ محبت کے لیے خوف لازم ہے خوف کے لیے محبت لازم نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی آدمی کسی سے بہت ڈرتا ہو لیکن اس سے محبت نہ رکھتا ہو لیکن جب محبت ہوجاتی ہے تو خوف خود آجاتا ہے کہ کہیں ہمارا محبوب ہم سے ناراض نہ ہو جاوے۔ اس لیے جو شخص صرف اﷲ کا خوف رکھتا ہے لیکن محبت نہیں رکھتا اس کے دل میں شیطان وسوسہ ڈال سکتا ہے کہ میاں کیا عبادت کر رہے ہو بے کار ڈر رہے ہو،مرنے کے بعد نہ عذاب ہے نہ ثواب ۔پس اگر دل سے خوف نکل گیا تو ایسا شخص گمراہ ہو گیا،کیوں کہ دل میں اﷲ کی محبت تو تھی نہیں جو رہنمائی کرتی ،پس اگر ڈنڈے کے خوف سے اﷲ کو یاد کیا تو کیایاد کیا اﷲ کو تو محبت سے یاد کرنا چاہیے ۔اہلِ محبت پر شیطان کا کوئی حربہ نہیں چلتا اگر وہ کبھی یہ وسوسہ بھی ڈالتا ہے تو عاشق کہہ دیتا ہے کہ کمبخت تو کہاں آیا ہے ہمیں تو بغیر ان کے نام کے چین ہی نہیں ملتا بغیر ان کی یاد کے تو ہم جی ہی نہیں سکتے ان کی یاد سے میرے دل کو جو کچھ مل رہا ہے تو ان وسوسوں سے ان نعمتوں کو نہیں مٹا سکتا، جا اپنا راستہ لے کہیں اور جا۔ پس مقام محبت تک شیطان کے قدم نہیں پہنچتے،کیوں کہ یہ مردود محبت کو جانتا ہی نہیں۔ حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ شیطان سالک محض تھا عاشق نہ تھا اسی وجہ سے مردود ہو گیا۔ پس محض خوف سے اﷲ کو یاد کرنا کمال نہیں، کمال تو یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی یاد میں آدمی مجبور محبت ہو جاوے یعنی دل کو محبت کا وہ مقام حاصل ہو جاوے کہ بغیر حق تعالیٰ کی یاد کے سکون ہی نہ ملے اور دل اﷲ کی یاد پر مجبور ہو۔ کیوں کہ اﷲ کا اپنے بندوں کے ساتھ صرف حاکم و محکوم کا ہی تعلق نہیں ہے بلکہ اﷲ کی ذات پاک میں محبوبیت کی شان بھی ہے۔ اگر محبوبیت کی یہ شان حق تعالیٰ کی ذات پاک میں نہ ہوتی تو ہر گز یہ آیت نازل نہ ہوتی کَلَّاۤ اِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ؎ ہر گز نہیں وہ اپنے رب سے اس دن محجوب ہو ں گے۔ہم انہیں اپنی صورت نہیں دکھائیں ------------------------------