خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
اس نے نہیں کہا کہ ابّا آج کل میں مقروض ہوں، کسی مرید سے، آپ اہلِ خیر سے کچھ اشارہ کر دیں تا کہ میرا قرضہ ادا ہو جائے۔ مدرسہ وہی چلاتا ہے، یہ جو ڈیڑھ ہزار طلباء ہیں اس میں حافظ اور عالم ہو ر ہے ہیں، اس مدرسہ سے میرا تعلق مولانا کی محنتوں سے ہے۔ میرا تو وہی ذوق ہے کہ جہاں کسی ملک نے اﷲ کی محبت میں بلایا فوراً پاسپورٹ ویزا لگوایا اورکبھی لندن، کبھی کینیڈا اور کبھی انگلینڈ روانہ ہوگیا۔سارا عالم حضرتِ والا کے دردِ دل کا قدر دان ہے ایڈمنٹن والوں سے میں نے کہا جو کینیڈا کا بڑا شہر ہے۔ میں تم سے چندہ مانگنے نہیں آیا ہوں۔ میں تمہارے لیے ایڈ من یعنی دل کی امداد لایا ہوں، ایڈمعنیٰ مدد اور من معنیٰ دل اور ٹن معنیٰ خوشی۔ ایڈمنٹن میں تمہارے دل کی خوشیوں کا ایڈ یعنی امداد لایا ہوں۔ میں اللہ کی محبت سکھانے آیا ہوں۔ میرے دردِدل کو غنیمت جان لو۔ مجھے اس سے نیچی چیزوں پر مت مجبور کر و، کیوں کہ میں عزت نفس اور عظمت دین پر عمل کر تا ہوں، جنوبی افریقہ کے علماء کو یہی دو لفظ سکھائے کہ عزت نفس اور عظمت دین کے ساتھ جتناکام کر سکو کرو ورنہ کام نہیں کرو۔ مولانا مظہر میاں سے بھی میں نے کہا ہے کہ مدرسہ اتنا چلاؤ جتنا عزت نفس اور عظمت دین سے چلے، اور بابا سے یہ توقع نہ رکھنا کہ تم کہہ دو کہ آج کل مقروض ہو گیا ہوں اور باپ سب مریدوں کی جیب تلاش کرے۔ اس مضمون سے مجھے دور رکھو اللہ کے لیے، کیوں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے ایسا درد بخشا ہے کہ سارے عا لم میں جہاں بھی جا رہا ہوں اس وقت ساری دنیا میرے درد کی خریدار ہے۔شیخ کے ساتھ معاملے کا ایک سبق دیکھیے! ایک بات کہتا ہوں کہ ایک زمانے تک مجھ پر قرضہ تھا۔ حضرت شیخ کے حکم پر چھ سال تک خانقاہ تعمیر ہوئی میں نے ایک دفعہ حضرتِ والا ہر دو ئی سے عرض کیا کہ حضرت! دعا فرما دیجیے کہ میر اقرضہ ادا ہو۔ بس حضرت نے کہا دعا کر تا ہوں۔ دوسری دفعہ لکھا تو وہاں سے بڑا کڑوا جواب آیا کہ خبردار! آیندہ سے اب مت لکھنا، دعا کے لیے بھی مت لکھنا۔ میں حیران رہ گیا کہ یہ عجیب جلالی شیخ ہے، لیکن معلوم ہو ا کہ