خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
حضرتِ والا نے ناراضگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ جو میری مجلس کو چھوڑ کر اپنی مجلس کو گرم کرے گا اس کی گرمیاں بھی سردیاں ہوں گی۔ ایک اجازت یافتہ نے عرض کیا کہ سخت عذر و معذرت کے باوجود اور علم و عمل کے اعتبار سے بے مائیگی کے باوجود لوگ حُسنِ ظن کی وجہ سے احقر کو بیانات پر مجبور کرتے ہیں۔ اس وقت یہ ہفتہ واری سلسلہ شہر کی مختلف مساجد میں جاری ہے، پتا نہیں یہ سلسلہ مجھے جاری رکھنا چاہیے یا نہیں؟ ارشاد فرمایا کہ غور کریں کہ ’’لوگ مجبور کرتے ہیں‘‘ کوئی چیز آپ کو اپنے شیخ کی مجلس میں آنے پر مجبور نہیں کرتی؟ ہمارے بزرگوں کا کیا طریقہ رہا ہے؟ اپنے بیانات کی مجالس سجانا یا شیخ کی مجلس میں خود کو مٹانا؟ بیانات کے لیے وقت نکل آنا اور اپنے شیخ کے پاس آنے کی فرصت نہ ملنا قلت محبت کی علامت ہے۔ اولیاء اللہ کی تاریخ شاہد ہے کہ جنہوں نے اپنے مشایخ کی قدر کی اللہ نے ان ہی سے دین کا کام لیا۔چندے سے متعلق حضرتِ والا دامت برکاتہم کی نصیحتیں واللہ! اختراپنے بزرگوں کے اعتماد پر، حرم کے اندر کہتا ہے کہ جس کے دل میں اللہ آتا ہے کائنات اس کی نگاہوں سے گر جاتی ہے، اس کے سامنے سلاطین کیا بیچتے ہیں۔ یہ ملّاؤں کو حقیر سمجھنے والے ہو ش کے ناخن لیں۔ ان کو خبر ہی نہیں کہ اللہ والوں کے قلب میں کیا نعمت ہو تی ہے۔ ورنہ تجربہ کرلوآج کسی کو گورنری مل جائے تووہ صدر مملکت کے جوتوں پر پالش کرے گا اور اللہ والے ہیں کہ خاطر میں نہیں لاتے سلاطین کے تخت و تاج کو۔ اپنے مولیٰ کی یاد میں مست ہیں ؎ خد اکی یاد میں بیٹھے جو سب سے بے غرض ہو کر تو اپنا بوریا بھی پھر ہمیں تخت سلیماں تھا صحن چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا وہ آگئے تو ساری بہاروں پہ چھا گئے