خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
ایسی ایسی نعمتیں نصیب ہو ں گی جو بڑے بڑوں کو نصیب نہیں ہوئیں اگر چہ روح کے عیش کے مقابلے میں ان کی کوئی نسبت نہیں اتنی بھی نسبت نہیں جتنی ذرّہ کو آفتاب سے ہے۔بعض اولیاء اﷲ کا آرام دیکھ کر بعض لوگ للچاتے ہیں کہ یہ لوگ تو بڑے مزے میں ہیں لیکن ان لوگوں کی نظر صرف جسم کے عیش پر ہے روح کے عیش کی تو ان کو خبر ہی نہیں کہ روح کو جو مزہ نصیب ہے جسمانی نعمتیں ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی نے کر تے کے نیچے جیبیں بنوا رکھی ہوں اور اس میں لاکھوں روپے چُھپا رکھے ہوں اور وہ لوگوں کی نظر سے پوشیدہ ہوں ۔دس دس کے کچھ نوٹ کر تے کی اوپر کی جیبوں میں رکھ چھوڑے ہوں جو نظر بھی آرہے ہوں تو اگر کوئی شخص کر تے کے اوپر کی جیبوں پر للچائی ہو ئی نظر ڈالے گا اور کہے گا کہ یہ شخص بڑے مزے میں ہے تو وہ شخص جس کے کر تے کے نیچے لاکھوں روپے چھپے ہوئے ہیں اس شخص پر ہنسے گا کہ بے وقوف تو اوپر کی دولت کو بہت سمجھ رہا ہے تجھے اس دولت کے عیش کی خبر بھی نہیں جو میں نے اندر چھپا رکھی ہے۔ بس یہی حال اولیاء اﷲ کے جسم اور روح کے عیش کا ہے۔ لوگ ان کے دنیاوی عیش کو بہت سمجھتے ہیں حالاں کہ اہل اﷲ کی ارواح طیبہ کو جو عیش نصیب ہے وہ باد شاہوں کو بھی نصیب نہیں جس کی سوائے ان کے کسی کو خبر نہیں۔روح کی مقوی غذا ارشاد فرمایا کہ آج کل روح کی غذا کی فکر نہیں ہے۔ جو بہت فکر کی تو بس فرض ڈیوٹی کو کافی سمجھتے ہیں، نماز روزہ کر لیا۔حالاں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، حدیثِ قدسی ہے: لَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ…الٰخ؎ کہ صرف فرض کی ادائیگی سے یعنی بغیر نوافل کے کوئی ولی نہیں ہو سکتا اس کے برعکس جسم کے معاملے میں صرف فرض کی ادائیگی پر قناعت نہیں ہو تی۔ کیوں صاحب ! کوئی حلوہ اور بالائی اور بر یانی کھانا تو فرض نہیں تھا چٹنی روٹی سے بھی جسم کا فرض ادا ہو سکتا ------------------------------