خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
کی تعریف کرنے سے یا مخلوق کی تعریف سے خوش ہو کر تم اپنے آپ کو اچھا سمجھ لیتے تو شیطان کامیاب ہوجاتا لیکن تم نے اپنے آپ کو اور حقیر کرلیا اور اﷲ سے مشغول ہوگئے۔ شیطان نے جو دشمنی کرنی چاہی تھی وہ ذریعۂ قرب ہوگئی۔ اﷲ والے کسی کی تعریف سے متأثر نہیں ہوتے اسی لیے انہیں قطب کہتے ہیں۔ قطب ستارہ اپنی جگہ سے ہلتا نہیں۔ نہ مخلوق کی تعریف ان پر اثر انداز ہوتی ہے نہ برائی۔ مدح و ذم ان کے لیے برابر ہوتی ہے۔ حضرت جنید بغدادی اپنے مریدوں کے ساتھ ایک بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک بڑھیا نے انہیں مکار کہا۔ حضرت جنید بغدادی نے فرمایا کہ صرف اس بڑھیا نے جنید کو صحیح پہچانا ہے۔ حضرت حاجی امداد اﷲ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ امداداﷲ پر اﷲ کی ستّاری ہے ورنہ یہ علماء مجھ سے بیعت ہوسکتے تھے؟ اﷲ والوں کی نظر اپنے کمالات پر نہیں ہوتی اپنے عیوب پر ہوتی ہے، وہ اپنے آپ کو دنیا کی ہر شے سے حقیر سمجھتے ہیں۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں ؎ ببانگ دہل ہولم از دور بود بغیب اندرم عیب مستور بود میرے ڈھول کی آواز سے میرا رعب و ہیبت دور دور پہنچ گیا ہے لیکن میرے اندر کا جو پول نظر نہیں آرہا اس کی بدولت میرا عیب پوشیدہ ہوگیا ہے۔ ڈھول کے اندر پول ہوتا ہے۔ میرا رعب و ہیبت مثل ڈھول کی آواز کے ہے کہ آواز تو دور دور جارہی ہے لیکن اندر سے خالی ہے، عیب دار ہے۔ کیوں کہ وہ نظر نہیں آرہا ہے اس لیے عیب پوشیدہ ہوگیا۔ ۱۵؍ربیع الاوّل ۱۳۸۹ھ مطابق یکم جون ۱۹۶۹ء بروز اتوارمتفرق ملفوظات آج صبح جب حسبِ معمول حاضرین جمع ہوئے اور حضرتِ والا اپنے ملفوظات سے بہرا ور فرمانے والے تھے کہ حضرت کے بھانجے کا لڑکا جو ماشاء اﷲ بہت شریر ہیں آگئے اور شرارتیں کر نے لگے ۔ حضرت نے انہیں ڈانٹ کر اندر بھجوا دیا اور باہر سے کواڑ بند کر ا لیے۔ ارشاد فرمایا کہ شیطان علم کے راستے میں اپنا ہر حربہ استعمال کر تا ہے ایسے