خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
اپنی جیب میں ایک کاغذ پنسل رکھتا تھا۔ ایک بار تانگہ میں تشریف لیے جارہے تھے بخاری شریف پڑھتے پڑھتے ایک دم کتاب بند کردی اور فرمایا: حکیم اختر! سن لو دعا مانگتے مانگتے اگر آنسو نکل پڑیں تو سمجھ لو قبول ہوگئی۔ اگر میرے پاس اس وقت کاغذ پنسل نہ ہوتی تو میں بھی ایسے ہی بیٹھا رہتا۔ علم کی بڑی قدر کرنی چاہیے، جو شخص علم کی قدر نہیں کرتا اﷲ تعالیٰ اسے محروم رکھتے ہیں۔ آیندہ اگر کوئی خالی ہاتھ آیا تو اس کو سزا دی جائے گی۔ جیسے کوئی یوں کہے کہ گلاب جامن کھا! نہیں تو ڈنڈے ماروں گا۔ گلاب جامن کے لیے ڈنڈا کھانا بے وقوفی ہے کہ نہیں۔ اﷲ کا ذکر تو دنیا کی تمام گلاب جامن سے کہیں زیادہ لذیذ ہے۔اﷲ کی راہ میں مزاحمت ترقی کا ذریعہ ہے ایک صاحب نے عرض کیا کہ گھر والے یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت کے پاس آنے سے دنیا کے کام کا نہیں رہے گا اس لیے بعض اوقات کچھ مزاحمت ہوتی ہے۔ فرمایا کہ اس راستے میں جتنی مزاحمت ہوتی ہے اتنی ہی ترقی ہوتی ہے اور جن کو کچھ مزاحمت نہیں اٹھانا پڑتی ان کی ترقی بھی کم ہوتی ہے۔ جیسے کوئی شخص آگے بڑھنا چاہ رہا ہو اور کوئی اس کو پیچھے کو گھسیٹ رہا ہو تو اس کو آگے بڑھنے کے لیے قوت صَرف کرنا پڑے گی اور کیوں کہ آگے بڑھنے میں اس کو مشقت ہوگی تو جو کچھ حاصل کرے گا اس کی اس کے دل میں قدر ہوگی،اور جدوجہد میں قوت پرواز بھی بڑھتی ہے بہ نسبت اس شخص کے جس کو کچھ مشقت اٹھانی نہیں پڑ رہی وہ ایک خاص رفتار سے آگے بڑھتا رہتا ہے اور جس کو مشقت کرنا پڑتی ہے وہ لامحالہ اپنی رفتار کو تیز کرتا رہتا ہے کہ کہیں گھسیٹنے والا غالب نہ آجائے۔ یہ راستہ ہی ایسا ہے کہ اس میں لوگوں کی لعن طعن بھی سننا پڑتی ہے۔ لیکن اس لعن طعن کے باوجود جو اپنی جگہ پر قائم رہے اس کا ایمان اور تازہ ہوجاتا ہے اس کے دل سے پھر مخلوق کا خوف نکل جاتا ہے۔ بس استقامت کی ضرورت ہے۔ دنیا دار سمجھتے ہیں کہ اﷲ والے نکمے ہوتے ہیں۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اہلِ دنیا اپنی نادانی کی وجہ سے انہیں کاہل کہتے ہیں لیکن آخرت کے کاموں میں تو یہ چاند سے بھی آگے نکل گئے ہیں ؎