خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
توعائشہ صدیقہ رضی اﷲعنہا نے عرض کیا کہ اے اﷲ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ کو کیسے پتا چل جاتا ہے کہ میں آپ سے ناراض ہوں؟ فرمایا کہ جب تو مجھ سے ناراض ہوتی ہے تو کہتی ہےوَرَبِّ اِبْرَاھِیْمَ ابراہیم کے رب کی قسم۔ اور جب مجھ سے خوش ہوتی ہے تو کہتی ہے بَلٰی وَرَبِّ مُحَمَّدٍ؎ محمدصلی اﷲعلیہ وسلم کے رب کی قسم۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ہنس پڑیں اور عرض کیا:یارسول اﷲ! آپ نے بالکل صحیح فرمایا، تو معلوم ہوا کہ عورتوں کو تھوڑا سا روٹھنے کا بھی حق حاصل ہے، اگر وہ منہ پھلالے تو آپ گھونسے مت مارو، پیار سے پھسلا کر، منہ میں گلاب جامن ڈال کر اس کو منالو۔ مگر یہاں تو لوگ اس کوکہتے ہیں تم کو کیا حق ہے روٹھنے کا؟ بس ایک آیت یاد کرلی: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ؎ اور باقی حدیثیں اور آیتیں ان کو نظر نہیں آتیں، مولوی بھی اس میں مبتلا ہیں، وہ بھی گھونسا مار کر منہ سُجادیتے ہیں کہ خبردار! اگر آیندہ منہ پھلایا، حالاں کہ محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ اگر وہ منہ پھلائے تو اس کو خوش کرو، پوچھو کہ کیا تکلیف ہے؟ آپ کے حق میں مجھ سے کیا کوتاہی ہوئی؟ گلاب جامن چھپا کر لے جاؤ اور جلدی سے اس کے منہ میں ڈالو، بیویوں کے منہ میں لقمہ ڈالنا سنّت ہے یانہیں؟ کبھی تو اس پر بھی عمل کرلو اور لقمہ سے مراد یہ نہیں کہ اس کے منہ میں چٹنی ڈال دی اور مرچوں سے اس کو پیچش لگ گئی۔بیویوں کے ساتھ اچھے اخلاق کا معیار آگے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرما رہے ہیں : فَاِنِّیْ اُحِبُّ اَنْ اَکُوْنَ مَغْلُوْبًا کَرِیْمًا میں محبوب رکھتا ہوں اس بات کو کہ عورتیں مجھ سے تیز آواز سے باتیں کریں لیکن میں کریم رہوں، میں اپنے اخلاق کی بلندیوں کے مینار کو نہ گرنے دوں، میں اپنی اخلاقی بلندیوں کو قائم رکھوں اور اﷲ کی بندیاں سمجھ کر بیویوں کی باتوں کو برداشت کروں: ------------------------------