خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
۶؍ ربیع الثانی ۱۴۲۱ھ مطابق ۹؍ جولائی ۲۰۰۰ء، بروز اتوار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو مشورہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا ایک صحابیہ تھیں۔ ان کی شادی حضرت مغیث رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی۔ وہ ایک باندی تھیں ان کے آقا نے انہیں آزاد کر دیا تو حضرت بریرہ نے کہا کہ اب میں آزاد ہوچکی ہوں، میں حضرت مغیث رضی اﷲ عنہ کو چھوڑتی ہوں کیوں کہ مجھ کو ان سے مناسبت نہیں ہے اور آزادی کے بعد خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم حق دیتے ہیں کہ اس کو چھوڑ دیں، لہٰذا میں اپنا حق استعمال کرتی ہوں۔ حضرت مغیث رضی اللہ عنہ کے اتنے آنسو بہے کہ داڑھی بھیگ گئی اور مدینہ شریف کی گلیوں میں حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کی یاد میں رویا کرتے تھے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت بریرہ سے ارشاد فرمایا کہ مغیث تمہاری وجہ سے بہت غمگین ہے تم اس کو نہ چھوڑو،اس پر رحم کرو۔ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)!یہ آپ کا مشورہ ہے یا حکم ہے؟ فرمایا کہ یہ مشورہ ہے، میرا حکم نہیں ہے۔ مشورہ اُمّت کے لیے واجب العمل نہیں ہے۔ اللہ نے تم کو اجازت دی ہے کہ تم چاہو تو اپنے شوہر کو باقی رکھو یا چھوڑ دو۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ کے باوجود حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے نکاح کو فسخ کیا، آزادی لی اور جان چھڑالی۔ بظاہر انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کی لیکن درحقیقت خلاف ورزی نہیں کی کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمادیا کہ یہ مشورہ ہے جو واجب العمل نہیں۔ لہٰذا اس حدیث کو سامنے رکھنا چاہیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مشورہ تھا کہ حضرت مغیث پر رحم کرو جو مدینہ کی گلیوں میں روتے پھر رہے ہیں،لیکن انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! اگر آپ کا حکم ہو تو جان دے دوں گی اور آپ کا حکم بجا لاؤں گی، لیکن یہ مشورہ ہے جس پر عمل کرنا واجب نہیں۔ اس حدیثِ پاک سے ثابت ہوا کہ مشورہ واجب العمل نہیں ہوتا۔