خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
ان کا فیصلہ بھی ان کا محکوم ہے حاکم نہیں۔ بس تم اپنے عزیزوں کے واسطے ایمان کی دعا کرتے رہو۔مدرسہ کے لیے چندہ سے احتراز کی تلقین ایک صاحب نے مدرسہ امداد العلوم کو زکوٰۃ اور صدقہ کی رقم بھجوائی۔ فرمایا کہ ماشاء اﷲ یہ صاحب تو مدرسے کی کافی مدد کر رہے ہیں۔ جب کوئی اس مدرسے کی مدد کر تا ہے تو مجھے اس لیے خوشی ہوتی ہے کہ اس مدرسہ کے حالات آپ کو معلوم ہی ہیں کیسے ہیں۔ مدرّسین کو بغیر تنخواہ کے آٹھ آٹھ نو نو مہینے ہو جاتے ہیں،دردر چندہ مانگنے سے میں نے مہتمم کو منع کر رکھا ہے، نہ میں خود کسی سے مانگنے جاتا ہوں۔ اﷲ تعالیٰ یہیں بیٹھے بیٹھے بھجوا دیتے ہیں۔ ان حالات میں یہ صاحب جو مدد کر رہے ہیں تو ان پر اﷲ کے فضل کی امید رکھتا ہوں کہ ان شاء اﷲ تعالیٰ حاجی صاحب کا فیض ان کو پہنچے گا اور ان کے دینی حالات درست ہو جائیں گے۔ یہ مدرسہ حاجی صاحب کے نام پر ہے۔ یہ کوئی دعویٰ نہیں ہے بس اﷲ کے فضل سے ایک امید رکھتا ہوں۔ اصل کامیابی تو یہی ہے کہ ان کے دینی حالات درست ہو جائیں ورنہ آدمی کا دین اگر ناقص رہے تو کیا فائدہ! نماز بھی پڑھ رہے ہیں اور داڑھی منڈارہے ہیں۔ آج کل لوگوں نے نماز روزہ کو کافی سمجھ لیا ہے، دین کو ناقص درجے میں قبول کر لیا اگر چہ دنیا کو کمال درجے میں حاصل کر نا چاہتے ہیں۔ دنیا کو ناقص رکھنا پسند نہیں کر تے ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے جنگل کی اندھیری رات میں ایک چراغ ہو ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی کا ۔غنیمت ہے، نہ ہونے سے تو بہتر ہی ہے، لیکن اتنے پر رضا مند ہو جانا کافی نہیں ۔ نور تو ایسا ہو کہ دور دور روشنی پہنچے کہ دوسروں کو بھی راستہ مل جائے۔ عرض کیا گیا کہ کیا صدقہ و خیرات ایک ہی چیزہے؟ ارشاد فرمایا کہ ہاں عوام کے لیے بس اتنا جاننا ہی کافی ہے صدقہ بلا کو دور کر تا ہے، اﷲ کے غصّے کو ٹھنڈا کر تا ہے، لیکن اس کا صرف ایک ہی طریقہ نہیں ہے آج کل کے مولوی وہ ایک طریقہ تو بتا دیں گے جو معروف ہے یعنی روپیہ پیسہ دینا کیوں کہ اس