خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
محض اپنے فضل سے اس قربانی کو قبول فرمالیجیے۔ اے اﷲ!یہ تلوار میں نے کیا چلائی آپ کی دی ہوئی توفیق سے چلی ہے اگر آپ توفیق نہ دیتے تو یہ قربانی دینا میرے بس کا کام نہ تھا ؎ کوئی عاشق مزاج اپنی نظر کو جب بچاتا ہے تو آرے دل پہ چلتے ہیں کلیجہ منہ کو آتا ہے شکر کرو،کیوں کہ حق تعالیٰ کا وعدہ ہے: لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ؎ تم شکر کرو گے تو ہم زیادہ نعمت دیں گے۔ اس شکر کی برکت سے گناہ کے شدید تقاضوں پر چھری چلانا آسان ہوتا رہے گا، کیوں کہ جتنا تقاضا شدید ہو گا اس تقاضے کو ذبح کرنے یعنی اس کے خلاف عمل کرنے سے نور بھی اتنا ہی قوی پیدا ہوگا۔ اس شکر کی برکت سے حق تعالیٰ یوں ترقی دیں گے کہ تقاضے شدید پیدا ہوں گے پھر حق تعالیٰ کی توفیق سے جب ان پرعمل نہ کرو گے تو قرب میں دن بدن ترقی ہوتی رہے گی۔امتحان کے پرچے ارشاد فرمایا کہ گناہ کے تقاضوں سے گھبرانا نہ چاہیے بلکہ جب خواہشات زیادہ پیدا ہوں تو خوش ہو نا چاہیے کہ امتحان ہو رہا ہے۔ یہ خواہشات کیا بس امتحان کے پرچے ہیں۔ بتاؤ! بغیر پر چوں کے کہیں امتحان ہوتا ہے اور کوئی پر چہ نہ دے تو کیا پاس ہو سکتا ہے ؟پس سمجھ لو کہ یہ پرچے ہیں جن کو پاس کر کے تم اﷲ کے پاس پہنچ جاؤ گے۔ ان پرچوں پر تمہاری کامیابی موقوف ہے۔ پھر گھبرانا کیا معنیٰ؟ اگر یہ پرچے نہ ہوں تو ترقی بھی نا ممکن ہے۔ بتاؤ!امتحان دیے بغیر کسی کو ترقی ملتی ہے؟ ان خواہشات کے پر چوں میں کامیابی ان کے خلاف عمل کرنے سے ہوتی ہے،اگر ان خواہشات کے پر چوں کو حل کر لیا یعنی ان کے خلاف عمل کر تے رہو تو اس دنیا کی امتحان گاہ سے کامیاب جاؤگے مرنے کے بعد تو جو عیش ملے گا وہ ملے گا ہی، دنیا ہی میں روح کو ایسا عیش نصیب ہو گا جو بادشاہوں نے خواب میں بھی نہیں دیکھا،اور دنیوی و جسمانی آرام الگ ہے ۔دنیا میں بھی ------------------------------