خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
۱۲؍ رمضان المبارک۱۳۹۴ھ مطابق ۲۹؍ ستمبر۱۹۷۴ء، بروز اتوار عروج بصورتِ نزول ارشاد فرمایا کہ آج کل رات کو سحری میں تو اٹھنا ہی ہوتا ہے منہ اور ہاتھ دھونے ہوتے ہیں کہنی اور پاؤں تک دھوکر وضو کرلیا اور چار نفل یا چھ نفل تہجد پڑھ کر دعا کرلی۔ رمضان میں تہجد پڑھنا آسان ہے۔ جو آج کل بھی تہجد نہ پڑھے بس وہ محروم ہی ہے۔ یہ دن اﷲ کی طرف سے لُٹانے کے دن ہیں، ہماری طرف سے لُوٹنے کے دن ہیں۔ آج کل یوں دعا مانگو کہ اے اﷲ!آپ نے اپنے خزانے لٹانے ہی کے لیے ہمیں پیدا کیا ہے، حدیثِ قدسی ہےکُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا؎اور ہم فقیر ہیں،آپ نے ہم کو اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ فرمایا تو ایک فقیر آپ سے مانگ رہا ہے آپ اپنے خزانۂ کرم سے تھوڑی سی بھیک عطا فرمادیجیے۔ ہمارے پیدا کرنے سے اﷲ کو کوئی نفع نہیں تھا، نہ اپنی عبادت کرانے میں ان کا کوئی نفع ہے، آپ نماز پڑھتے ہیں اس سے خدا کی سلطنت بڑھ نہیں جاتی ہے بلکہ ہماری بندگی کی تکمیل کراکے معراج عطا فرمارہے ہیں آپ کو اپنا مقرب و مکرم فرمارہے ہیں۔ سر کو نزول ہورہا ہے مگر روح کو عروج ہورہا ہے سرزمین پر اتر رہا ہے، لیکن اتر نہیں رہا بلند ہورہا ہے۔ صورتاً نزول ہے حقیقتاً عروج ہے۔اس کا نام ہے عروج بصورتِ نزول۔۱۶؍ رمضان المبارک ۱۳۹۴ھ مطابق۳؍ اکتوبر ۱۹۷۴ء، حیدرآباد دنیائے فانی کے آثار سے کون محفوظ ہوتا ہے؟ ارشاد فرمایا کہوَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ؎ دو حیات ہیں: ایک تو حیاتِ ابدی و آسمانی ہے، اور ایک حیات دنیاہے۔ تو حیاتِ دنیا مع اپنے متعلقات کے دھوکے کی پونجی ہے،کیوں کہ جب یہ دنیا دھوکے کی کنجی ہے تو جو چیز اس سے متعلق ------------------------------