خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
راستے میں داخل ہوتا ہے اور اس پر محنت کی جاتی ہے کچھ عرصے بعد اس میں پختگی پیدا ہوجاتی ہے تو دوسرا داخل ہوتا ہے پھر اس پر وقت اور محنت صرف کرنے سے وہ بن جاتا ہے، اس طرح تھوڑے تھوڑے آدمیوں پر محنت کرنا اور وقت دینا آسان ہوتا ہے اور اس طرح تربیت آسان ہوجاتی ہے، اس کے برعکس اگر بہت سے آدمی مثلاً ایک ہزار ایک وقت میں داخلِ سلسلہ ہوں تو تربیت مشکل ہوجائے،کیوں کہ اس کثرتِ ہجوم میں افراد پر محنت کرنا اور ان کے حالات کو سننا اور ان کو وقت دینا مشکل ہوتا ہے اور اس طرح وہ خام ہی رہ جاتے ہیں۔ جیسے اگر کسی کے چار، پانچ بچے ایک ساتھ پیدا ہوجائیں تو ان کی تربیت مشکل ہوجائے اسی طرح کثرت ہجوم میں روحانی تربیت بھی مشکل ہوتی ہے۔ اس لیے حق تعالیٰ کی عجب رحمت ہے کہ تھوڑے تھوڑے آدمی دین کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ان کو تربیت کا عرصہ مل جاتا ہے جس سے ان میں پختگی آجاتی ہے یہاں تک کہ وہ ایک عرصے میں دوسروں کی تربیت کے قابل ہوجاتے ہیں،یہاں تک کہ اگر پیر مر بھی جائے تو یہ تربیت یافتہ دوسروں کو سنبھال لیتے ہیں۔اور اسلام کی تاریخ میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ پہلے چند افراد ایمان لائے جیسے حضرت صدیقِ اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایمان لائے پھر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایمان لائے پھر کچھ عرصے آپ نے ان پر محنت کی اور ان کی تربیت فرمائی اس طرح رفتہ رفتہ لوگ ایمان لاتے رہے اور ان کی تربیت ہوتے ہوتے یہ لوگ کثیر تعداد میں ہوکر دوسروں کے ہادی اورمصلح بن گئے،یہاں تک کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تقریباً آٹھ سو تابعین کے استاد تھے۔ برمکان ڈاکٹر ایوب صاحب حیدرآباد، بوقت صبححضرتِ والا دامت برکاتہم کی بے پایاں شفقت کی ایک مثال حافظ عبدالرحیم صاحب اور دوسرے احباب سے درمیان گفتگو فرمایا کہ آپ لوگ ہمارے میر صاحب کا کلام سنیے تو معلوم ہوگا کہ اردو شاعری کے فن کے اعتبار سے ان کا کلام ایسا ہے کہ اگر کسی کو نہ بتایا جائے تو لوگ سمجھیں گے کہ غالب