خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
۱۴؍ذوقعدہ ۱۳۹۴ھ مطابق ۳۰؍نومبر ۱۹۷۴ء برمکان حافظ عبدالقدیر صاحب، حیدرآباد ایک علمِ عظیم حضرتِ والا اشراق کی نماز پڑھ کر تلاوت فرمارہے تھے اور یہ آیت روکر پڑھی: قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللہِ ؕ اِنَّ اللہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ ﴿۵۳﴾ وَ اَنِیۡبُوۡۤا اِلٰی رَبِّکُمۡ؎ پھر ارشاد فرمایا کہ یہ آیت آپ نے ہزار بار پڑھی لیکن اس وقت اﷲ نے اس کی تلاوت میں ایک خاص لطف عطا فرمایا۔ میرے شیخ فرمایا کرتے تھے کہ قرآن کی ایک ایک آیت میں علوم کے سمندر بھرے ہوئے ہیں لیکن پردے پڑے ہوئے ہیں جب میاں چاہتے ہیںپردہ ہٹادیتے ہیںاورمعنیٰظاہر فرماتے ہیں۔حق تعالیٰ نےاسآیتمیںفرمایا یٰعِبَادِیْ حق تعالیٰیٰعِبَاد بھی فرما سکتے تھے کہ اے نبی! بندوں سے کہہ دو یا یہ عنوان بھی فرماسکتے تھے کہیٰعِبَادِنَا ہمارے بندوں سے کہہ دو لیکن قرآن میں جہاں جہاں خاص شانِ رحمت و تعلق کا ظہور ہوا ہے وہاں یائےمتکلم کو استعمال فرمایا ہے جیسے کعبہ کو بَیْتِیْ فرمایا، اور بندوں کو اپنے خاص تعلق کے اظہار کے لیے سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہلایا رَبَّنَا الْاَعْلٰی کی تعلیم نہیں دی۔ اسی طرح یٰعِبَادِیفرماکر بندوں کو خوش خبری دے دی کہ اے نبی! میرے ان بندوں سے فرما دیجیے جو مسرف علی انفس ہیں یعنی گناہ گار ہیں کہ تم لوگ میری رحمت سے مایوس نہ ہو۔ دیکھیے ابھی آیت نازل ہورہی ہے اور مسرفین علی انفس سے خطاب ہورہا ہے جنہوں نے ابھی توبہ بھی نہیں کی، ابھی پاک صاف بھی نہیں ہوئے لیکن ان کی رحمت دیکھو کہ عبادی فرماکر گناہ گاروں کے ساتھ بھی اپنا تعلق ظاہر فرمارہے ہیں کہ اے میرےگناہ گار بندوں! تم عین گناہ کی حالت میں بھی میرے ہی ہو ------------------------------