خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
حرارت بھی نہ ملے تو درخت کا نشو ونما نہیں ہو سکتا، اس درخت میں پھل پھول نہیں آسکتے، دونوں قسم کی گرمی ضروری ہے۔ اسی طرح سالک کے لیے بھی داخلی گرمی اور خارجی گرمی کی ضرورت ہے۔ داخلی گرمی تو ذکر اورپابندی معمولات سے حاصل ہوتی ہے اور خارجی گرمی کے لیے ضروری ہے کہ آفتاب ولایت کی معیت حاصل ہو یعنی صحبت شیخ نصیب ہو، جب تک آفتاب نبوت موجود ہے اس وقت روح کو خارجی گرمی اس کی صحبت سے حاصل ہو گی اور آفتاب نبوت کے مستور ہو جانے کے بعد آفتاب ولایت سے حرارت خارجی حاصل ہو گی ۔ بغیر اس کے قلب و روح کا نشوونما نا ممکن ہے، خیر القرون میں صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین کو آفتاب نبوت سے یہ خارجی حرارت حاصل ہوتی تھی اور یہ اسی آفتابِ کا فیض ہے کہ اب قیامتتک کوئی ولی صحابہ کے مقام کو نہیں پا سکتا۔ داخلی حرارت حضرت اویس قرنی رحمۃ اﷲ علیہ میں بدرجۂ اتم موجود تھی لیکن آفتاب نبوت سے براہِ راست فیضیاب نہ ہونے کی وجہ سے مقام صحابیت حاصل نہ ہوسکا۔اسی طرح اگر کوئی شیخ کامل کی صحبت میں رہتاہے لیکن ذکر و معمولات اور اعمالِ صالحہ کی پا بندی نہیں کرتا تو بھی اس کی روح کا نشو ونما نہیں ہو سکتا، اس کی جان کے درخت میں پھل پھول نہیں لگ سکتے یعنی اس کی جان با خدا نہیں ہو سکتی کیوں کہ وہ خارجی گرمی تو حاصل کر رہا ہے لیکن داخلی گرمی سے محروم ہے۔اسی طرح اگر کوئی ذکر ومعمولات کی پابندی کرتا ہے لیکن آفتاب ولایت کی شعاعوں سے محروم ہے یعنی شیخ کامل کی صحبت اختیار نہیں کرتا تو اس کو بھی کامیابی نہیں ہو سکتی کیوں کہ روح کے درخت کو خارجی گرمی نہیں مل رہی ہے۔ پس چند دن کسی شیخ کی صحبت میں رہ کر ذکر و مجاہدات کر لو پھر دیکھنا کہ ایک مدت کے بعد روح کا درخت کیسا پھلتا پھولتا ہے کہ قرب حق کی ایسی لذّت محسوس ہوگی کہ اس کے اظہار کے لیے الفاظ نہیں مل سکتے ۔طالبِ جاہ کو اﷲ نہیں مل سکتا ارشاد فرمایا کہ کبھی شیطان دل میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ آج محنت و مجاہدہ کر لو ایک دن تم بھی شیخ ہو جاؤ گے تمہارے پاس بھی مخلوق دعا کرانے آئے گی تمہارے مکان کے سامنے بھی کاریں کھڑی ہوں گی ،لوگ آگے پیچھے پھریں گے۔ یہ خیال