خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
آفتابِ نور کو ہٹا لیں تو آدمی مٹی کا ڈھیلا ہے۔ کبھی آفتاب کرم کو دل کے محاذات سے ہٹا لیتے ہیں تاکہ اپنی حقیقت معلوم ہو اور گھٹ گھٹ کرنیستی پیدا ہو کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں، پھر جب شعاع ڈالتے ہیں اور نفس کی زمین کی حیلولت کو ہٹاتے ہیں تو چاند میں پھر نور آجاتا ہے۔ میری محبت کی باتیں ان شاء اﷲ آپ کے قلم سے اﷲ تعالیٰ لکھوائیں گے۔حضرتِ والا کی بے مثال محبت اور احقر کے لیے دعا ایک صاحب مٹھائی لائے تو حضرتِ والا نے فرمایا کہ کھاؤ مٹھائی کھاؤ۔ پھر مزاحاً فرمایا کہ آپ میں مٹھائی بھی ہے اور نمکینیت بھی ہے یعنی محبت بھی ہے اور محبوبیت بھی۔ جس ناز سے میں نے تمہارے لیے دعا کی ہے کسی کے لیے نہیں کی کہ یااﷲ! میرے حسام الدین کو مجھ سے نہ چھینیے۔ اس کی قبولیت کی علامت یہ ہے کہ جس ناز سے تمہارے لیے دعا کی اس وقت میاں نے الفاظ بھی عطا فرمائے۔ میں کیا انبیاء علیہم السلام بھی ناز نہیں کر سکتے مگر جب ادھر سے اشارہ ہوتا ہے اس وقت وہ حالتِ ناز میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ میری روح پر ایسی کیفیت زندگی بھر میں ایک دو بار طاری ہوئی۔حضرتِ والا کی دِلجوئی اور شفقت آج بعد ظہر احقر کو یوں بلایا ؎ بیا بیا و فرود آں کہ ایں خانہ خانۂ تست احقر کے پاس ایک روپیہ تھا اس خو شی میں احقر حضرتِ والا کے لیے ایک روپیہ کا کینو یا کچھ اور بطور ہدیہ دینے کا ارادہ کر رہا تھا کہ حضرتِ والا نے فرمایا کہ ٹٹرا سائیکلین دوا منگوانا ہے دو روپے کی آتی ہے میرے پاس ایک ہی روپیہ ہے۔ احقر نے عرض کیا کہ ایک روپیہ میرے پاس ہے جو میں ابھی حضرت کی خدمت میں ہدیہ دینے والا تھا حضرتِ والا نے ہنستے ہوئے فرمایا: ماشاء اﷲ۔ میں نے آپ کا روپیہ ایک کروڑ کے برابر درج کر لیا۔ احقر نے عرض کیا کہ یہ وسوسہ آرہا ہے کہ اپنے فہم کی وجہ سے دو ماہ سے جو غلطیاں ہو رہی ہیں احقر کی وجہ سے حضرت کی بدنامی کا باعث نہ ہوں جس سے میں مردود نہ ہوجاؤں اور سوء خاتمہ نہ ہو جائے۔ فرمایا کہ جو غلطیاں ہورہی ہیں میری