خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
۲؍ ربیع الاوّل ۱۳۹۱ھ مطابق ۲۸ ؍اپریل ۱۹۷۱ ء، بروز بدھ ایک شعر کی مختصر درد انگیز تشریح آج حضرتِ والا دامت برکاتہم نے ازراہِ کرم احقر کے لیے یہ شعر فرمایا ؎ ہے کس کی جستجو میں ترے درد کا یہ حال عشرت ہے اپنا چاک گریباں کیے ہوئے پھر فرمایا کہ اس شعر کے ایک معنیٰ یہ بھی ہیں کہ اللہ کی جستجو میں عشرتیں یعنی راحتیں الم سے تبدیل ہو گئی ہیں اور وہ الم عشرتوں سے زیادہ لذیذ ہے۔احقر کے بارے میں حضرتِ والا کے دو شعر تقریباً ۴۳؍ سال پہلے جب احقر حضرتِ والا دامت برکاتہم کی خدمت میں حاضر ہوا اس زمانے میں بے اختیار وقفہ وقفہ سے احقر کے منہ سے سرد آہ نکل جاتی تھی۔ ایسے ہی ایک موقع پر حضرتِ والا دامت برکاتہم نے فی البدیہہ یہ دو شعر فرمائے ؎ مجبور ہو کے آہ کرے ہے جو بار بار شاید ہے کوئی چوٹ اٹھائے ہوئے جگر سب خوشی قربان ہے بر آہِ سردِ عاشقاں لالہ و گل ہیں فدا بر روئے زردِ عاشقاںعلمِ دین حاصل کرنے میں نیت کی درستگی ارشاد فرمایا کہ علم دین حاصل کرنے میں نیت صرف یہ ہو کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے علم سیکھ رہاہوں یعنی میرا اللہ مجھ سے راضی ہو جائے۔ یہ نیت کرنا کہ اُمّت کو دین سکھاؤں گا، واعظ بنوں گا یا مدرّس بنوں گا، وعظ و نصیحت کروں گا، بزرگوں نے فرمایا ہے کہ یہ نیت کرنا درست نہیں۔ اس میں بھی نفس شامل ہو تا ہے۔ دراصل اس میں اُمّت میں بڑا بننے کی نیت چھپی ہوئی ہے۔ جب امام غزالی طالبِ علم تھے بادشاہ نے ان سے پوچھا کہ علم کیوں حاصل کر