خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
اِنتظامی اُمور میں مشورہ دینے کی شرط اب بتاؤ! میں نے بالغین کے ساتھ اپنی عمر گزار دی تو میں نابالغوں کی بات کیسے مانوں؟ حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ بالغین کے بھی استاد تھے۔ اُن پر اللہ کی محبت اس قدر غالب تھی کہ کچھ نہ پوچھو۔ مشورہ دینے کے لیے بالغ ہونا ضروری ہے لیکن بالغین کو نابالغ لوگ سمجھانے لگیں تو کیا ہوگا؟ نابالغ کو سمجھنا چاہیے کہ ہم مشورہ دینے کے قابل ہی نہیں۔ میں کہتا ہوں، غور سے سن لو! نابالغ آدمی یعنی جو ہوائے نفس سے مغلوب ہے اور سنّت وشریعت کا پابند نہیں وہ مشورہ دینے کا اہل نہیں ہے اور جو اہل ہے وہ انتظامی اُمور میں مشورہ دے سکتا ہے مگر یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ مشورہ واجب العمل نہیں ہے، دل میں سمجھ لے کہ میں نے مشورہ دے دیا، اب جو اُن کے سمجھ میں آئے وہ کریں، مجھے اس سے سروکار نہیں۔ اگر اس کا مشورہ قبول نہ کیا جائے تو نہ شکایت ہو، نہ غیبت ہو،نہ تنقید کرے اس قسم کے الفاظ بھی کبھی زبان پر نہ آئیں۔ خصوصاً شیخ کا معاملہ تو بہت نازک ہے، اگر اس سے بدگمانی ہوگئی یا اعتراض پیدا ہوگیا تو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔طبیعت پر عقل کو اور عقل پر شریعت کو غالب رکھو میرے جتنے مال دار دوست ہیں اور چندہ دیتے ہیں ان کو میری طرف سے مبارک باد ہے اور مبارک بادی کا اعلان ہے لیکن اپنے مشورے کو درجۂ عمل میں لانے کا انتظار کبھی نہ کریں،یہ مشورہ دینا قرآن پاک کی آیت سے مستند ہے۔ لیکن مشورہ واجب العمل نہیں ہے یہ بھی قرآن پاک کی آیت سے ثابت ہے فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ جس نے مشورہ دیا ہے اس پر واجب ہے کہ ہشاش بشاش رہے اور ظاہر کر دے کہ میرے مشورے پر عمل نہ کرنے کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہے۔ اگر ایسا نہیں کرتا تو پھر عقل کو مغلوب اور طبیعت کو حاکم بنانا ہے۔ عقل کو طبیعت پر غالب رکھو اور عقل پر شریعت کو غالب رکھو۔ جو شخص عقل پر شریعت کو غالب رکھے گا اس کو ان شاء اللہ کوئی وسوسہ نہیں آئے گا۔ یہ بہت قیمتی جملہ ہے۔ مشورہ کے خلاف ہونے کے باوجود طبیعت کو ویسے ہی راضی رکھتا ہے تو خدا کے یہاں اُس کا اَجر مستند ہے کیوں کہ طبیعت پر عقل کو اور عقل پر شریعت کو غالب رکھتا