خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
اِنسان کا مقصدِ حیات کیا ہے؟ ارشاد فرمایا کہ دیکھو! ایک ریل جارہی ہے، اس ریل میں ہتھکڑی لگے ہوئے مجرمین بھی ہیں اور اسی ریل کے فرسٹ کلاس میں وزیر اعظم بھی جارہا ہے تو دنیا بھی ایک مسافر خانہ ہے، اسی دنیا میں پیغمبر ان اور اولیاء بھی رہتے ہیں اوراسی دنیا میں ایک سے ایک خبیث الطبع بدمعاش بھی ہے۔یہ دنیا بھی ریل ہے جو خاموشی سے چل رہی ہے، سورج، چاند، سیارات سب چل رہے ہیں مگر کسی کو احساس نہیں ہے۔ جنہوں نے امپورٹ ایکسپورٹ آفس کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھا ہے کہ کھائے جا، گو بنائے جا، یہ لوگ نہیں جانتے کہ ہم کس لیے پیدا ہوئے۔ رات کو امپورٹ کیا، صبح لیٹرین میں ایکسپورٹ کیا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم سب کے سب امپورٹ ایکسپورٹ آفیسر ہیں، حالاں کہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے تم کو امپورٹ ایکسپورٹ آفیسر نہیں بنایا میں نے تم کواپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ یہ جوکھاتے پیتے ہو یہ وسیلۂ حیات ہے لیکن مقصدِ حیات میری عبادت ہے، تم نے وسائل کو مقاصد سمجھ لیا، کپڑا مقصدِ حیات نہیں ہے وسیلۂ حیات ہے، مکان بنانا وسیلۂ حیات ہے، روٹی کا انتظام کرنا وسیلۂ حیات ہے اور مقصدِ حیات اﷲ کی فرماں برداری پر جان دینا ہے۔ اور فرماں برداری دو قسم کی ہے: ایک تو اﷲ پاک جس سے خوش ہوں اس کام کو کرو اور جس سے ناخوش ہوں اس کام سے بچو۔ جن باتوں سے اﷲ تعالیٰ ناخوش ہوتے ہیں ان سے نہ بچنا جرمِ محبت ہے، غداری ہے، وفاداری نہیں ہے۔ کیا وفاداری کے یہ معنیٰ ہیں کہ اپنے محبوب کو صرف خوش کرواور اس کی ناخوشی سے نہ بچو؟ ایک ہی تار سے روشنی چاہتے ہو، اگر منفی اور مثبت دونوں تار نہ ہوں تو بجلی کا بلب نہیں جلتا اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے اپنے ایمان کی روشنی کے لیے دو تار دیے ہیں، نماز، روزہ اور دیگر عبادات یہ مثبت تار ہے اور گناہ سے بچنا، حسین لڑکوں اور لڑکیوں سے بچنا، غیبت سے بچنا،یہ منفی یعنی مائنس تار ہے، دونوں تاروں پر عمل کرو پھر بھول جاؤگے ان سب مرنے والے حسینوں کی لاشوں کو۔