خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
اسٹیشن ماسٹر حضرت کا معتقد تھا لیکن تھا ہندو کیوں کہ پلیٹ فارم پر اندھیرا تھا اس لیے وہ لالٹین لے آیا۔حضرت کو خیال ہوا کہ یہ تو ریلوے کی ہوگی،فرمایا کہ بھائی یہ لالٹین ریلوے کی ملک ہے، ریلوے کے کاموں ہی میں استعمال ہوسکتی ہے ذاتی استعمال میں لانا ہمارے لیے جائز نہیں اسے واپس لے جاؤ۔ وہ ہندو رونے لگا،کہا کہ یہ ہیں اﷲ والے۔ کافروں کے دلوں میں بھی اسلام کی حقانیت کا سکہ بیٹھ جاتا ہے اﷲ والوں کو دیکھ کر۔ غرض جس جگہ بھی ہو جس کام پر بھی ہو یہ خیال رہے کہ کوئی ایسی بات تو سرزد نہیں ہورہی جو حق تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہو خصوصاً مدرسوں کے اہتمام اور چندہ کے لیے بڑے تقویٰ کی ضرورت ہے۔ مولانا تھانوی رحمۃاللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یہ کام اسی کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہیے جو اعلیٰ درجہ کا متقی ہو، معمولی تقویٰ والے کو تو اس کام کے قریب بھی نہ جانا چاہیے ورنہ ثابت قدم رہنا سخت مشکل ہے۔ اگر کسی میں تقویٰ نہیں ہے تو بے احتیاطی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور یہ بے احتیاطی اس راہ میں سمِ قاتل ہے۔ بہت سوں کے حالات خراب ہوگئے۔ ساری ترقی مسدود ہوگئی اور دنیا دار بن کر رہ گئے۔ میرے ایک پیر بھائی تھے ایک مدرسہ کا چندہ وصول کرنا ان کے ذمہ تھا لیکن کرتے کیا تھے کہ ادھر رسید کاٹی اور ادھر خربوزے منگوالیے، چائے اڑارہے ہیں لسی پی رہے ہیں۔ نتیجہ کیا ہوا کہ دین تباہ ہوگیا اور بالکل دنیا دار ہوگئے۔ اور صحابہ کا طرز عمل کیا تھا کہ ایک بار بیت المال کا اونٹ کھوگیا۔ حضرت عمر خود تلاش کرنے چل دیے لوگوں نے عرض کیا کہ آپ ایک اونٹ کی تلاش میں کیوں جارہےہیں؟ خدام چلے جائیں گے۔ فرمایا کہ قیامت کے دن عمر سے سوال ہوگا، خادموں سے نہیں۔ اگر اﷲ نے سوال کرلیا کہ بیت المال کا اونٹ گم ہوگیا تھا تم نے تلاش کیوں نہیں کیا تو کیا جواب دوں گا۔عُجب کا نہایت مؤثر علاج غرض ظاہری و باطنی گناہوں سے بچنے کی ہر وقت فکر رہنی چاہیے۔ بعض دفعہ آدمی ظاہری گناہوں سے بچتا ہے لیکن باطنی گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے مثلاً چندہ اور اہتمام کا کام تو دیانت سے کیا مخلوق میں واہ واہ ہوگئی اور عُجب پیدا ہوگیا کہ واقعی میں بڑا