خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
یہشخص دوسری روحوں میں بھی زلزلہ پیدا کر دیتا ہے، دوسری روحیں بھی اس کی صحبت سے اللہ والی ہوجاتی ہیں۔۲۶؍ ربیع الثانی ۱۳۸۹ھ مطابق ۱۱ ؍جولائی ۱۹۶۹ ء دو نصیحتیں ارشاد فرمایا کہ(۱)دل کی بیماری (مثلاً گناہ کے گندے گندے خیالات پکانا اور غفلت وغیرہ) کو معمولی مت سمجھو اور (۲)زندگی کو لمبی مت سمجھو کہ نہ جانے زندگی کس وقت ختم ہو جائے اور گناہوں کی حالت میں اللہ کے پاس جاؤ، اس لیے جلد سے جلد دل کی بیماریوں کا علاج کرالو۔۲۸؍ ربیع الثانی ۱۳۸۹ھ مطابق ۱۳ ؍جولائی ۱۹۶۹ ء بروز اتوار،مجلس بوقت گیارہ بجے صبح سامعین کی تعداد مقصود نہیں،وعظ سے رضائے حق تعالیٰ مقصود ہے ارشاد فرمایا کہ ایک شخص حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے وعظ کا بڑا عاشق تھا۔ ایک بار کسی جگہ حضرت کا وعظ تھا ، اس شخص کو دیر ہوگئی، یہ تیزی سے جارہا تھا کہ راستے میں مولانا نانوتوی سے ملاقات ہوگئی، پوچھا کہ کیا وعظ ختم ہوگیا؟ مولانا نے فرمایا کہ ہاں، وہ شخص افسوس کے مارے بیٹھ گیا اور رونے لگا۔ مولانا نے اس کے آنسو اپنے ہاتھ سے پونچھے اور فرمایا کہ وعظ ختم ہوگیا تو کیا ہوا، واعظ تو موجود ہے، یہ کہہ کر پورا وعظ چار گھنٹے کا اس کو سنایا۔ اس لیے اگر کبھی لوگوں کی تعداد کم ہو تو کچھ فکر نہ ہونی چاہیے کیوں کہ تعداد مقصود نہیں،اللہ مقصود ہے کہ وہ کسی طرح راضی ہوجائے۔ ایک آدمی ہے اس کو اللہ کی بات سنادی اور یہ عمل اللہ نے قبول فرمالیا تو بیڑا پار ہے ورنہ ایک لاکھ مرید ہوں اور اللہ راضی نہ ہو تو سب بے کار ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ اگر ایک آدمی بھی نہ آوے تو بھی کوئی افسوس نہیں، جتنی دیر آپ لوگوں کو اللہ کی باتیں سناتا تھا اتنی دیر اللہ کے ساتھ مشغول