خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
کلمہ پڑھتا ہوں۔ اسی طرح جب کوئی اللہ کے راستے میں کسی کی رہبری میں خوب مجاہدہ کرتا ہے تو ایک وقت آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی خوشبو اڑا دیتے ہیں، جس سے اس اللہ والےکو دیکھ کر کافروں کے دلوں میں ایمان آتا ہے۔ جب آدمی صاحبِ نسبت ہوجاتا ہے تو اسے خود معلوم ہو جاتا ہے کہ آج میں صاحبِ نسبت ہو گیا۔ حضرت خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب جو حضرت تھانوی کے بہت چہیتے خلیفہ تھے، حضرت کے عاشق تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے دریافت کیا کہ جب آدمی صاحبِ نسبت ہو جاتا ہے تو کیااسے معلوم ہو جاتا ہے کہ آج میں صاحب نسبت ہو گیا؟ حضرت نے فرمایا کہ ہاں! جب بچہ بالغ ہوتاہے تو کیا اسے معلوم نہیں ہو جاتا کہ آج میں بالغ ہوگیا یا وہ کسی سے پوچھنے جاتا ہے کہ میں بالغ ہوا یا نہیں؟ اس کی رگ رگ کا جوش اور طاقت اسے خود بتادیتی ہے کہ آج تو بالغ ہوگیا۔ نسبت کے معنیٰ اصطلاحِ صوفیا میں یہ ہیں کہ بندے کی روح کا اللہ سے اور اللہ کا بندے سے قوی رابطہ ہو جائے۔ کبھی نسبت یک طرفہ ہوتی ہے کہ بندے کا اللہ سے رابطہ ہو لیکن اللہ کا بندے سے نہ ہو۔ جیسے بدعتی پیر ہیں کہ محنت اور مجاہدات بھی کرتے ہیں لیکن قرب نصیب نہیں ہوتا۔ وہ تو اپنے آپ کو اللہ کا ولی سمجھتے ہیں اور اللہ کے یہاں اولیا کے گروہ میں ان کا نام نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اللہ کا ولی ہونے کے لیے تو اتباعِ سنّت اور نافرمانیوں سے پرہیز ضروری ہے، صرف ذکر اور مجاہدوں سے کیا ہوتا ہے وہ یہ مجاہدے تو کرتے ہیں ذکر بھی کرتے ہیں لیکن دوسرے گناہوں میں مبتلا ہیں، سنّت کے مطابق زندگی نہیں، پھر ان کو قرب کیسے حاصل ہوگا؟ ان کا حال بالکل ایسا ہےجیسا مولانا رومی نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک شخص کہتا پھرتاتھا کہ میری بادشاہ کی لڑکی سے شادی ہورہی ہے جبکہ بادشاہ کو محل میں اس کی خبر بھی نہیں تھی ؎ خانۂ داماد پُر از شور و شر خانۂ دختر نبودے زاں خبر ایسے ہی یہ بدعتی شور مچاتے ہیں کہ ہم اللہ کے ولی ہیں لیکن اولیا کے گروہ میں ان کا نام نہیں ہوتا۔ مجنوں بنے پھرتے ہیں اور لیلیٰ کے یہاں مجنوں کی فہرست میں ان کا نام نہیں