خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
اسی کا نام نفس ہے۔ اور شرح مشکوٰۃ میں ملّا علی قاری محدثِ عظیم لکھتے ہیں کہ نفس نہ تو کثیف ہے نہ لطیف ہے، یہ روح اور جسم کے درمیان میں ہے، روح لطیف ہے اور جسم کثیف ہے ان کے درمیان میں نفس رہتا ہے۔ اگر نیک عمل کر لیے، روحانی اعمال کرلیے تو لطیف ہو جاتا ہے، روح جیسا ہوجاتا ہے، اور اگر گناہ کرلیا تو جسم جیسا کثیف ہوجاتا ہے، اﷲ کی فرماں برداری سے نفس میں لطافت آجاتی ہے اور روح بھی ولی اﷲ ہو جاتی ہے۔نفس اور شیطان کی دشمنی کا فرق انسان کے دو دشمن ہیں: ایک نفس، ایک شیطان۔نفس داخلی دشمن ہے شیطان خارجی دشمن ہے۔ ان دونوں دشمنوں میں فرق کیا ہے؟ نفس وہ دشمن ہے جو اصلاح کے بعد ولی اﷲ بھی ہوسکتا ہے لیکن شیطان وہ دشمن ہے جو مردودِ دائمی ہے، یہ کبھی ولی اﷲ نہیں ہوسکتا۔ دونوں دشمنوں کا یہ فرق اﷲ تعالیٰ نے میرے قلب کو عطا فرمایا، میں نے کتابوں میں کہیں نہیں دیکھا حالاں کہ دونوں دشمن نصِ قطعی سے ہیں، دونوں دشمنوں کا ثبوت قرآنِ پاک اور حدیثِ پاک میں ہے لیکن دونوں دشمنوں میں فرق یہ ہے کہ تھوڑی سی محنت کرلو تو نفس ولی اﷲ ہوجاتا ہے اور شیطان پر کتنی محنت کرو یہ کبھی ولی اﷲ نہیں ہوسکتا یہ ہمیشہ مردود رہے گا،یہ فرق ہے دونوں دشمنوں میں۔ تو مشکوٰۃ شریف سے ملّا علی قاری کی شرح ہوگئی کہ نفس متوسطہ ہے، بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجِسْمِ؎ہے یعنی روح لطیف ہے اور جسم کثیف ہے، اگر عمل اچھا ہوا تو اس میں لطافت آجاتی ہے یہاں تک کہ اسی نفس کے ساتھ لوگ کہاں سے کہاں پہنچ گئے یعنی ولی اﷲ ہوگئے۔ عبادت یہ نفس ہی تو کرتا ہے، کام تو اسی ظالم سے لینا ہے، یہ تو مزدور ہے، گھوڑا ہے، اسی پر بیٹھ کر اﷲ تک پہنچنا ہے، مگر ایسا گھوڑا جو سوار کو گرا دے وہ منزل تک نہیں پہنچنے دیتا لہٰذا نفس کو اتنا مسٹنڈا مت کرو، اتنا مرغ وماہی مت کھلاؤ کہ جس سے نفس تم پر سواری کرلے، سواری پر سوار ہونا چاہیے نہ کہ سواری ہی سوار پر سوار ہوجائے۔ تو جو نفس کی بات مانتا ہے اور اﷲ کی نافرمانی کرتاہے یہ دلیل ہے کہ نفس کی سواری اس پر سواری کررہی ہے۔ ------------------------------