خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
سے منور ہوکر صاحب نسبت بھی ہوچکا ہے تو بھی نفس سے بے خوف نہ ہونا چاہیے، نہ جانے نفس کس وقت شمالاً جنوباً حرکت کربیٹھے اور اپنی اصلیت پر رجوع کرکے سرکشی اور فرعونیت یا شہوت سے مغلوب ہوکر اپنی حیلولت سے دل کے بدرکامل کو حق تعالیٰ سے محجوب کرکے بے نور کردے۔ اس لیے عامۃ المسلمین تو گناہ سے ڈرتے ہیں لیکن اہل اﷲ کفر سے ڈرتے ہیں کہ نہ معلوم خاتمہ کس حال پر ہو اور نفس سے کسی وقت ایسی حرکت نہ ہوجاوے کہ ایمان ہی سے ہاتھ دھونا پڑے۔حضرت مہدی کو علیہ السلام کیوں کہا گیا؟ ایک طالب علم دارالعلوم کراچی نے سوال کیا کہ حضرت مہدی علیہ السلام کو علیہ السلام کیوں کہتے ہیں جبکہ یہ خطاب تو صرف انبیاء علیہم السلام کے لیے خاص ہے۔ حضرتِ والا نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ آپ تو علمی مرکز میں ہیں وہاں کسی عالم سے دریافت کرسکتے ہیں لیکن میری سمجھ میں یہ بات آرہی ہے کہ وہ اگرچہ نبی نہیں ہیں لیکن نبی جیسے کام ان سے ہوں گے اور کبھی ادنیٰ ملابست سے بھی وہ نام رکھ دیا جاتا ہے جیسے نَہْرٌجَارٍ اگرچہ نہر جاری نہیں ہے پانی جاری ہے لیکن ادنیٰ ملابست سے محل کا نام وہ رکھ دیا جو حال کا ہے اسی طرح انبیاء علیہم السلام کے منصب سے ادنیٰ ملابست کے سبب یہاں بھی تسمیۃ الحال باسم المحل ہوا ہے اور علیہ السلام کا لفظ ان کے نام کے آگے لگادیا۔ اس کو منطق کی اصطلاح میں مجاز مرسل اور تسمیۃ الحال باسم المحل کہتے ہیں۔ اس پر ان طالب علم نے عرض کیا کہ یوں تو ہر ولی سے انبیاء علیہم السلام کا کام ہی لیا جاتا ہے تو ہر ولی کو علیہ السلام کیوں نہیں کہتے صرف مہدی علیہ السلام کو ہی کیوں کہا گیا۔ جواب میں فرمایا کہ بے شک حضرت مہدی علیہ السلام ولی تو ہیں لیکن ایسے ولی ہیں جو عام مخصوص منہ البعض ہیں اور کلّی کا کوئی فرد خاص نہیں ہوسکتا جب تک کوئی مخصص نہ ہو اور اس کی تخصیص احادیث متواترہ ہیں۔ احادیث میں آپ کے خاص فضائل اور آپ کا ذکر کیا گیا جبکہ اور اولیاء کا تذکرہ احادیث میں نہیں ہے پس اس تخصیص کی وجہ سے حضرت مہدی کو علیہ السلام کا لقب دیا گیا۔