خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
کے قلب کا نور ،خشیت اور محبت و نسبت و تقویٰ تمہارے دل میں منتقل ہو کر تمہارا دیسی اور بے قیمت دل بھی قلمی بن جائے گا۔ شرط یہی ہے کہ شیخ کی تجویز کے سامنے اپنے کو بالکل مٹادے یعنی اپنی رائے کو فنا کر کے شیخ کی تجویزات پر عمل کرے۔۲۱؍ محرم الحرام ۱۳۹۵ھ مطابق ۳؍ فروری ۱۹۷۵ ء، بعد ظہر محبتِ شیخ کے حدود یہ ملفوظ آج صرف احقر کی اصلاح کے لیے بیان فرمایا۔صحبت اور محبتِ شیخ باعثِ فرح ہے ،مگر یہ محبت حادث ہے اور اس کا فرح دائم نہ ہوگا، ہاں! اگر اس محبت للحق کا صحیح استعمال ہو یعنی دوام ذکر و فکر میں کوتاہی نہ کی جاوے تو یہ محبت للحق موجب و سبب محبت بالحق ہوجاوے گی کیوں کہ یہ محبت حادث بالشیخ معین لمحبت الحق القدیم ہے اور محبت بالحق کا سرور و فرح لا زوال اور دائم ہوگا کیوں کہ وہ قدیم ذات ہے جو حدوث وتغیر سے پاک ہے۔ جنہوں نے شیخ سے محبت کی اور اس سے اﷲ کی محبت حاصل نہ کی ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی وضو کرے اور نماز نہ پڑھے کیوں کہ محبت شیخ ذریعۂ مقصود تھی، مقصود نہ تھی۔ مقصود محبت حق تھی، تو ایسے لوگوں کی محبت للحق محبت بالحق نہ ہو سکی یعنی حق تعالیٰ سے خاص تعلق پیدا نہیں ہو سکتا اور وہ صاحب ِنسبت نہیں ہو سکتا ۔اصلاحِ رذائل اور مقاومتِ نفس عطا ہونے سے محروم رہے گا۔ یہ ملفوظ آج احقر ؔ کے لیے بیان فرمایا۔ احقرؔ اپنی نالائقی سے ذکر و معمولات چھوڑ دیتا تھا یہ ملفوظ بیان فر ما کر فرمایا کہ آج میں نے اپنی امانت کا حق ادا کر دیا کوئی اور پیر ہوتا تو کہتا کہ بس میری ٹانگ دابتے رہو اور میرے لیے بازار سے سبزی اور گوشت وغیرہ لاتے رہو کام بن جائے گا لیکن محبت شیخ سے مقصود حق تعالیٰ کے ساتھ تعلق حاصل کرنا ہے جب تک براہِ راست تعلق حق سبحانہٗ تعالیٰ کی ذات قدیم سے نہ ہو گا تو سرور و فرح وسکون لا زوال کا حصول بھی نا ممکن ہے ۔پس اگر محبت شیخ محبت حق کا سبب ہو گئی تو مقصود حاصل ہو گیا ورنہ نہیں۔ اس ملفوظ سے محبت شیخ کے حدود کی نشاندہی ہوتی ہے۔ احقرؔ نے عرض کیا کہ ذکر وغیر ہ میں کچھ مزہ نہیں آرہا ہے اور قلب میں