خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
پھر آکر بیٹھی تو زور کا چپت رسید کر دیا مکھی کا مرنا تو ظنّی تھا لیکن چپت کا چہرے پر لگنا یقینی تھا تو ایسی محبت کس کام کی ۔ ایسی ہی نادانی کی محبت کفارِ مکہ نے کرنا چاہی تھی اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے انہوں نے پیشکش کی تھی کہ ہم آپ کے اﷲ پر ایمان لے آئیں گے لیکن ہماری چند شرطیں ہیں اگر آپ ہماری ان شرطوں کو پورا کر لیں تو ہمارے آپ کے درمیان کوئی اختلاف نہ رہے گا اور وہ یہ ہے کہ ایک سال ہم خوب آپ کے اﷲ کی عبادت کریں گے اور اس سال ہم اپنے بتوں کی عبادت نہیں کریں گے اور دوسرے سال آپ ہمارے بتوں کی عبادت کیجیے اور اپنے اﷲ کی عبادت نہ کیجیے۔ ان کی یہ نادانی کی محبت اﷲتعالیٰ کی ناراضگی کاموجب ہو گئی اور سورۂ قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الۡکٰفِرُوۡنَ نازل ہوگئی کہ اے ہمارے نبی! کہہ دیجیے لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْن؎َ میں ان بُتوں کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کر تے ہو۔ بھلا کہاں اﷲ اور کہاں پتھر کے بُت جن پر کتا بھی ٹانگ اُٹھا کر پیشاب کر دیتا ہے۔اﷲوالے شیخ سے کیسی محبت ہونی چاہیے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ولایت کا اعلیٰ ترین مقامِ صدیقیت بلکہ اﷲ کے راستے کا پورا مزہ حاصل کرنا چاہے اس کو چاہیےنمبر ایک کسی اﷲ والے سے خُلّت کا تعلق قائم کر لے۔ اور خُلّت کے معنیٰ یہ ہیں کہ اس کے علاوہ غیر پر نظر نہ جاوے۔ اﷲو رسول کے بعد اس اﷲ والے پر دل و جان سے فدا ہو اگر اس کے علاوہ کسی دوسرے بزرگ پر بھی نظر ہے کہ چلو ان سے بھی استفادہ لے لیں تو سمجھ لو کہ اسے خُلّت حاصل نہیں اور یہ شخص صدیق نہیں ہو سکتا ۔ اس اﷲ والے پر جان و مال و آبرو قربان کر نے کا جذبہ دل میں رکھے کہ اگر میرا شیخ یہ حکم دے کہ چلو جہاد پر چل رہا ہوں تو پھر بیوی اولاد ماں باپ کچھ یاد نہ آئیں۔ اس کی محبت میں اپنی آبرو کی بھی پر وا نہ کرے کہ اس کی خدمت کروں گا یا ہاتھ چوموں گا یا پاخانہ پیشاب صاف کروں گا تو لوگ کیا کہیں گے ۔ ہر طرح شیخ کے آرام کی ------------------------------