خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
میں کہیں بھی رہتا ہوں دل ان کے پاس رہتا ہےعشقِ مجاز کا حاصل ارشاد فرمایا کہ عشق مجاز کا حاصل گناہ ہے، معصیت کا نام لوگوں نے محبت رکھ دیا ہے حالاں کہ جس سے محبت ہوتی ہے اس کی تو عاشق ہمیشہ خبر گیری رکھتا ہے، اس کی دونوں جہاں کی فلاح کی فکر ہوتی ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس عالم میں بھی خوش رہے اور اس عالم میں بھی۔ لیکن یہ کیا محبت ہے کہ صورت بدلنے کے بعد اس کی طرف دیکھنے کو بھی جی نہیں چاہتا اور کبھی خیال بھی نہیں آتاکہ کہاں مررہا ہے پس گناہ کرنے کے شدید تقاضوں کا نام اضطراب عشق رکھ دیا ہے، کہتے ہیں یہ عشق کی بے چینیاں ہیں،یہ کسی کی یاد میں جلنا اور تڑپنا بڑی اونچی چیز ہے یہ کسے ملتی ہے حالاں کہ یہ سب دھوکا ہے۔ عشق کی تمام بے چینیوں کا حاصل گناہ کرنا ہے جسے یہ بے چینی کہہ رہے ہیں اور الفاظ کی ملمع سازی کرکے بدمعاشیوں کے نئے نئے نام رکھ رہے ہیں۔ لیکن ملمع ہٹا کر دیکھو تو معلوم ہوگا کہ نفس صرف یہ چاہتا ہے کہ فلاں حسین مل جائے اور اس کے ساتھ منہ کالا کرلوں۔حفاظت نظر کا حکم حق تعالیٰ کی محبت اور رحمت کا مظہر ہے اور اس سے حفاظت کا علاج صرف غض بصر ہے۔ حق تعالیٰ کلام پاک میں مومنین کو خطاب فرمارہے ہیں: قُلْ لِّلْمُوْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَ بْصَارِھِمْ ہر آدمی کو اپنے بچوں سے محبت ہوتی ہے، باپ ڈرتا رہتا ہے کہ بچہ کہیں غلط سوسائٹی میں پڑ کر خراب نہ ہوجائے۔ غیر کے بچے کی فکر نہیں ہوتی۔ اﷲ تعالیٰ کو اپنے خاص بندوں کی فکر ہوئی کہ کہیں یہ خراب نہ ہوجائیں اس لیے اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے فرمارہے ہیں کہ جو ہمارے خاص ہیں آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں ورنہ خراب ہوجاؤگے اور نہایت نقصان میں پڑجاؤگے۔ مارے محبت کے اﷲ میاں آگاہ فرمارہے ہیں۔