خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
علم اور خشیت لازم و ملزوم ہیں ارشاد فرمایا کہ کوئی لازم اپنے ملزوم سے منفک نہیں ہو سکتا ۔برف کے لیے برودت لازم ہے اور نار کے لیے حرارت لازم ہے ۔ اگر کہیں آگ جل رہی ہو لیکن اس میں گرمی نہ ہو تو کہیں گے یہ آگ نہیں۔ اسی طرح اگر کہیں برف رکھی ہو اور اس میں ٹھنڈک نہ ہو تو کہیں گے کہ یہ برف نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ لازم و ملزوم کا انفکاک و انفصال محال ہے ۔ پس جس طرح آگ کے لیے حرارت لازم ہے اور برف کے لیے برودت لازم ہے اسی طرح علم کے لیے خشیت لازم ہے۔ ا ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: اِنَّمَا یَخۡشَی اللہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا ؎ اِنَّمَاکے ساتھ حصر فرمادیا۔خشیت محصورہے علم کے ساتھ ،خشیت صفت لازمہ ہے علم کی ۔پس جس عالم میں خشیت نہ ہو وہ عالم کہلانے کا مستحق نہیں ، اس کے اندر علم نہیں۔ اِنَّمَا یَخْشَی اللہَ الٰخ اگر چہ جملہ خبریہ ہے لیکن ہر جملہ خبریہ میں جملہ انشائیہ پوشیدہ ہوتا ہے، جیسے کسی نے کہا کہ دیکھو یہاں سانپ ہے تو اگرچہ یہ جملہ خبریہ ہے لیکن اس میں جملہ انشائیہ داخل ہے کہ سانپ سے بچو۔ اب اگر کوئی اس خبر کے بعد سانپ سے بچنے کی کوشش نہیں کر تا تو گویا وہ اس جملہ خبریہ کی عملی تکذیب کر تا ہے ۔ اسی طرح قرآنِ پاک سے جنّت کی بشارت اور دوزخ کی وعیدوں کی خبر مل جانے کے بعد اگر جنّت کے حصول اور دوزخ سے بچنے کی کوشش نہیں کرتا تو گویا وہ قرآن کی خبروں کی عملی تکذیب کر تا ہے ۔ عالم وہی ہے جس کے اندر اتنی خشیت پیدا ہوجائے جو اس کو دوزخ کے عذاب سے بچنے والا بنا دے۔لیکن خشیت کی بھی حدود ہیں، اتنی خشیت مطلوب نہیں کہ خوف سے بخار آجائے اور بستر پر لیٹ جائے ۔ بس اتنا خوف مطلوب ہے جو بندے کو گناہوں سے بچالے ۔اسی لیے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم دعا فرماتے ہیں: اَللّٰہُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْیَتِکَ مَا تَحُوْلُ بِہٖ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ مَعَاصِیْکَ؎ ------------------------------