خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
دوسری شادی کے متعلق ملفوظات (ماخوذ از تربیت عاشقان خدا) ارشاد فرمایا کہ چار شادی کی اجازت ہے، حکم نہیں ہے، اور یہ اجازت مطلق نہیں اس شرط سے مقید ہے کہ شوہر انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اﷲتعالیٰ علیہم اجمعین کے کمالِ ایمان اور تقویٰ کے ساتھ یہ شرط نازل ہوئی اور آج کل تو ایمان کا کیا حال ہے۔ اس لیے اس زمانے میں ایک ہی پر صبر ضروری ہے ورنہ دو شادی کرکے اگر دونوں میں برابری نہ کی تو سخت گناہ گار ہوگا۔ پھر اس زمانے میں صحت اور قوّت بھی کمزور ہے۔ اُس زمانے میں خون نکلوانا پڑتا تھا اور اب خون چڑھوانا پڑتا ہے۔ اور موجودہ زمانے میں جس نے بھی دو شادی کی دل کا چین و سکون غائب ہوا۔ لیلیٰ کی تعداد بڑھا کر مولیٰ کی یاد کے قابل نہ رہے۔ نظر کی حفاظت نہ کرنے کا یہ وبال ہے کہ ایک لیلیٰ پر صبر نہیں۔ ٭ایک صاحب نے دوسری شادی کی اجازت مانگی کہ میں فتنۂ نساء سے محفوظ رہنے لیے دوسری شادی کرنا چاہتاہوں ۔ ارشاد فرمایا کہ جب بیوی موجود ہے تو کیا یہ فتنۂ نساء سے اسباب ِحفاظت میں سے نہیں ہے؟ اس زمانے میں دو بیویوں میں عدل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اکثر دیکھنے میں آیا کہ زندگی تلخ ہوگئی، اور آخرت کے مواخذہ کا اندیشہ الگ۔ اس زمانے میں ایک ہی بیوی کا حق ادا ہوجائے تو غنیمت ہے۔ ٭ایک صاحب نے مستورات میں خانقاہی کام اور مدرسے کی ترتیب کے لیے دوسری شادی کی اجازت مانگی۔ ارشاد فرمایا کہ مستورات میں خانقاہی کام اور مدرسے کی ترتیب بھی نفس کا بہانہ معلوم ہوتا ہے۔تعجب ہے کہ دوسری شادی کا پیغام بھیجنے کے لیے مشورہ بھی نہیں کیا شاید اس لیے کہ مشورہ میں احتمال تھا کہ آپ کی رائے کے خلاف ہوتا۔ مشایخ کا کام دین کا کام کرنا ہے، لوگوں کو اﷲ والا بنانے میں اپنے اوقات کو صَرف کرنا ہے نہ کہ