خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
تھی۔ کبھی یہ سنّت بھی ادا کرو۔ بہرحال اگر قیامت کے دن اپنی ایک لاکھ خطائیں معاف کرانی ہیں تو اپنی بیوی کی ایک لاکھ خطائیں معاف کرو۔ حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار اپنے نوکر سے کہا کہ میں تمہیں کتنا معاف کروں؟ تم نے مجھے اتنا ستایا ہے کہ میں بھگتے بھگتے عاجز ہوگیا، اب کتنا بھگتوں؟ بھگتنا کے معنیٰ ہیں برداشت کرنا۔ تو حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اے میرے بھتیجے! جتنا تجھے اپنا بھگتوانا ہے اتنا بھگت لے۔ آہ! کیا جملہ ہے۔ غرض اپنی بیویوں کی ایک لاکھ خطا معاف کرو اور ان کو پیار سے رکھو۔ تو ان صاحب نے جن کے یہاں لڑائی رہتی تھی اور بیوی ناراض رہتی تھی جب میری بتائی ہوئی ترکیب پر عمل کیا اور دفتر جاتے وقت اور آتے وقت اور سوتے وقت اس کو پیار کیا تو ساری لڑائی ختم ہوگئی اور بیوی نے کہا کہ بس اسی بات کی کمی تھی کہ تم مجھے پیار نہیں دیتے تھے۔ بیوی کی پیشانی کا بوسہ لینا اور گال چومنا بھی جائزہے، مکروہ بھی نہیں ہے بلکہ مستحب ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں کہ میری بندی کو پیار کررہا ہے۔ خاص کر بڈھا جب کسی بڑھیا کو پیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ جوانی میں تو طبیعت کے تقاضے سے پیار کررہا تھا، اب اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے تقاضے سے پیار کررہا ہے۔ دل نہیں چاہتا بڈھے کا کہ بڈھی کو پیار کرے کیوں کہ اس کے دانت باہر آگئے، گال پچک گئے اور آنکھ پر پونے گیارہ نمبر کا چشمہ لگ گیا۔ اس لیے میں نے لندن میں کہا تھا کہ اپنی بڈھی بیویوں سے اکیلے میں کمرہ بند کرکے جہاں کوئی اور نہ ہو پیار کرو اور چاہے دل سے نہ کہو، زبان سے کہو تو بھی اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول ہے کہ اے میری بڑھیا، شکر کی پُڑیا، واہ رے میری گڑیا۔ خصوصاً بڑھاپے میں خوب پیار کرو۔ اگرچہ دل ساتھ نہ دے رہا ہو، پھر بھی اجر ہے، ثواب ہے، ان شاء اللہ۔ اخلاقِ ظاہرہ دکھانا بھی بعض مرتبہ اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول ہے۔بیویوں کا ایک حق لہٰذا دل نہ چاہے پھر بھی بیوی کو پیار کرو، کبھی کوئی جائز فرمایش کرے اس کو پورا کرنا نہ بھولو ورنہ اس کے دل میں یہ ہوگا کہ شوہر کے دل میں ہماری قدر نہیں ورنہ