خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
واقعی شیخ کو باربار نہیں کہنا چاہیے۔ اس میں ایک قسم کا انشائیہ تو ہے، مگر اس میں دوسرا رخ بھی ہے کہ شیخ کو مجبور کیا جارہا ہے کہ شیخ کو اتنا پریس(Press) کر و کہ وہ کسی پریس والے کے پاس جائے کہ چھاپو نوٹ۔ تو میرے کا ن کھڑے ہو گئے وہ دن ہے اور آج کا دن ہے کہ میں نے کبھی مالیاتی معاملے میں شیخ سے دعا بھی نہیں کروائی اور سندھ بلوچ میں کتنی زمینیں خرید رہا ہوں لیکن میں نے شیخ سے کبھی نہیں کہا کہ حضرت! دعا کر دیجیے کہ فلانی زمین بہت اہم ہے اس کے لیے پیسے کا انتظام ہو جائے۔ میں نے سوچا بھئی! دعا کی درخواست کر کے ایک دفعہ مزہ چکھ لیا۔ معلوم ہوا کہ اس معاملے میں شیخ کو استعمال کر نا صحیح نہیں۔ جو اس کے پاس اللہ کی محبت کا تربوز ہے اس کو یوز(use)کر و۔ لہٰذا دوسرے معاملات میں اس کو مت چھیڑو۔ یہ اس کی قدر و منزلت ہے۔ اگر کسی کے پاس ایک کروڑ کا موتی ہے تو اس سے ہلکی اور ادنیٰ چیزیں مت مانگو۔ عزت نفس اور عظمت دین کی خاطر اپنے شیخ کو، اپنے بڑوں کو مجبور مت کرو جس کی وجہ سے ان کی زبان تمہاری محبت میں مغلوب ہو کر کہیں کھل نہ جائے اس سے بہتر ہے کہ مدرسہ کم کر دو اور استطاعت نہ ہو تو کام نہ کر و۔ جھونپڑی میں رہ کر دین کا کام کرومگر کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاؤ۔حضرتِ والا کی شانِ استغنا میرے شیخ حضرت پھولپوری نے ایک جھونپڑی بنائی تھی۔ جو بانس اور پھونس کی تھی اس میں بیٹھ کر حضرت پانچ پانچ پارے تلاوت کرتے تھے۔ کوئی شیروانی ہو یا نواب کا بچہ ہو آؤ اسی جھونپڑی کے نیچے بیٹھو اور عبدالغنی سے دین سیکھو، استغنا سے رہو۔ میں نے اپنے شیخ سے یہی سیکھا ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ مجھے سارے عالم میں لے چلو بس مالیاتی معاملے میں مجھے مت اُلجھاؤ۔ مجھ سے جنوبی افریقہ میں میرے بعض پیر بھائیوں نے کہا کہ آپ چندے کے لیے کسی سے نہ کہیے مگر ہم آپ کے مدرسہ کے لیے چندہ کر تے ہیں۔ میں نے کہا کہ میری موجودگی میں آپ ہرگز ایسا نہ کریں۔ لوگ کہیں گے کہ یہ خود تو منبر پر خامو ش ہے، اللہ کی محبت کا درد سکھا رہا ہے لیکن اپنے