خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
احقر ناظم آباد میں حضرت کے دواخانہ میں کھانا کھارہا تھا، کھانا کھاکر باہر آیا تو سر پر ٹوپی اوڑھنا بھول گیا۔حضرتِ والا نے نہایت محبت کے لہجے میں فرمایا کہ آپ کی ٹوپی کیا ہوئی۔ خیر کوئی بات نہیں بگڑنے میں بھی زلف اس کی بناکی۔احقر کے لیے بشارتِ عظمیٰ ایک صاحب کا خط آیا جس میں بہت اچھے اچھے خواب انہوں نے دیکھے تھے۔ صرف احقر صبح حاضر خدمت تھا۔ احقر سے فرمایا کہ خوابوں کو زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ دیکھو فلاں مولوی صاحب نے کتنا عمدہ خواب دیکھا تھا مجھ سے تعلق کرنے کے بعد، لیکن بعد میں کچھ تعلق کا حق ادا نہیں کیا۔ اور تمہیں مجھ سے سب سے زیادہ محبت ہے لیکن تم کوئی خواب نہیں دیکھتے۔ اصل چیز بیداری کی حالت ہے۔ میں جب اپنے شیخ سے بیعت ہونے چلا تو اسی رات خواب دیکھا کہ میں مولانا سراج احمد صاحب سے بیعت ہوگیا ہوں اور انہوں نے مجھے سینے سے لگالیا۔ اگر میں خواب پر ان سے بیعت ہوجاتا تو تباہ ہوجاتا کیوں کہ بیداری میں مجھے ان سے مناسبت نہیں تھی۔ اس خواب کے بعد بھی میں اپنے شیخ پھولپوری ہی سے بیعت ہوا۔ کیوں کہ اگر کسی کوبیداری میں کسی محبوب سے محبت ہے اور خواب میں دیکھے کہ کسی دوسرے محبوب نے اسے سینے سے لگالیا تو کیا خواب سے بیدار ہوکر اسے اس دوسرے محبوب سے حقیقتاً محبت ہوجائے گی؟ ہرگز نہ ہوگی۔ بس روحانی مناسبت کا بھی یہی معاملہ ہے۔ حضرتِ والا کے ارشاد سے کہ تمہیں مجھ سے سب سے زیادہ محبت ہے، احقر کو اس قدر خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے ؎ مجھ پہ یہ لطف فراواں میں تو اس قابل نہ تھا احقر کی روح پر ایک سُکر کی کیفیت طاری تھی۔ اس خاص کیفیت میں یہ شعر موزوں ہوا ؎ پھر خون کی گردش میں صہبا کی ہے آمیزش ہے آج کرم فرما وہ نرگسِ مستانہ