خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
دوسرے تیسرے دن ہی حضرتِ والا نے دریافت فرمایا کہ تم نے کیا کیا ہے، تو میں نے عرض کیا کہ حضرت! بی۔کام کیا ہے ۔تو د ریافت فرمایا کہ کہاں سے کیا ہے، تو احقر نے عرض کیا:علی گڑھ یونی ورسٹی سے ۱۹۵۹ء میں۔ حضرت نے فرمایا کہ اچھا دس سال ہو گئے۔پھر حضرتِ والا نے وہی دریافت فرمایا جس کا مجھے ڈر تھا کہ کیا کر تے ہو؟ احقر نے عرض کیا کہ کچھ بھی نہیں۔حضرتِ والا نے خوش ہو کر فرمایا کہ ماشاء اﷲ! اور احقر کو سینے سے لگا لیا۔ اور فرمایا: مجھے تو ایسے ہی آدمی کی ضرورت ہے جس کا دل دنیا کے کاموں میں نہ لگتا ہوپھر مثنوی کا یہ شعر پڑھا ؎ تابدانی ہر کہ را یزداں بخواند از ہمہ کار جہاں بیکار ماند احقر تو یہ سمجھ رہا تھا کہ میرے جواب سے حضرتِ والا کو تکلیف ہو گی لیکن جب حضرتِ والا نے مجھے اپنے سینے سے لگایا تو پہلے تو احقر کی سمجھ میں نہیں آیا کہ حضرت نے مجھے سینے سے کیوں لگایا ہے لیکن بعد میں جب وجہ سمجھ میں آئی تو ایسا لگا کہ کسی نے مجھے گہرے سمندر سے نکال لیا اور اسی وقت دس سال کا سارا احساس کمتری ایک پل میں جا تا رہا ۔ احقر میر عفا اﷲ تعالیٰ عنہٗاہلِ دین اور اہلِ دنیا کا فرق حضرت کے بھانجے کا چھوٹا بچہ آیا اس کو پکڑا تو چیخنے لگا۔ ارشاد فرمایا کہ اس وقت اﷲ تعالیٰ نے ایک مضمون دل میں ڈالا ہے۔ میں اس بچے کو پیار کرنا چاہ رہا تھا لیکن نا واقف ہے چیخنے لگا ایسے ہی جب دنیا داروں کو اﷲ و رسول کی طرف دعوت دی جاتی ہے تو چیختے ہیں،ان کی روحیں نابالغ ہیں۔ اس بچے کو ابھی چاکلیٹ دکھا دیتا تو خوش ہوجاتا۔ ایسے ہی دنیاوالے دنیا کی ہر دعوت قبول کر لیں گے ۔اس بچے کو تو سب معاف ہے، اﷲ تعالیٰ کے یہاں اس کی پکڑ نہیں کی جائے گی لیکن اگر تم نے اﷲ اور رسول کی دعوت ایمان کو قبول نہ کیا تو تمہیں معاف نہیں کیا جائے گا کیوں کہ عاقل بالغ ہو چکے ہو۔ انہوں نے تمہاری پر ورش کی ہے۔جسم اور جان و عقل کو بڑا کیا ہے۔ اگر پھر بھی اﷲ کو نہ پہچانا تو وہ معاف نہ کریں گے۔