خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
شہادت کے درجے سے صدیقیت کا درجہ افضل ہے جنگِ اُحد میں جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے دندان مبارک سے خون بہتا ہوا دیکھا تو بے چین ہوگئے اور کافروں کی طرف جھپٹےاور اپنی جان دینا چاہتے تھے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جان نہیں دینے دی اور فرمایا اے صدیق!شِمْ سَیْفَکَ لَاتَفْجَعْنَا بِنَفْسِکَ؎ اپنی تلوار کو میان میں رکھ لے اور اپنی جان کو ہلاک کرکے مجھ کو اپنی جدائی کا غم نہ دے۔ یہ صدیق کی شان ہے کہ نبی صدیق کی زندگی کا مشتاق ہوتا ہے کیوں کہ صدیق کار نبوت کو انجام دیتا ہے،اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کو حق حاصل ہے کہ وہ جس کو چاہے جہاد کرنے کا حکم دے اور جس کو چاہے نہ دے۔صدیق آئینۂ نبوت ہوتا ہے۔ اور صدیق کے معنیٰ ہیں کہ جو نبی کے کام کو انجام دے۔ لہٰذا شہادت کے درجے سے صدیقیت کا درجہ افضل ہے جیسا کہ آیت پاک کی ترتیب بتا رہی ہے: مِنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ؎ صدیقیت کے بعد شہداء کا درجہ ہے۔ صدیق کی زندگی شہید کی زندگی سے افضل ہے کیوں کہ صدیق زندہ رہ کر نبوت کے کام کو انجام دیتا ہے۔ اپنے شیخ کو بھی صدیق سمجھنا چاہیے کہ ان کی زندگی موت سے بہتر ہے۔ تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ زندگی بچاکر زندہ رہے اور مرے بھی تو بھی زندہ رہے یعنی شہید کا درجہ بھی ملا۔مشورہ دینے والوں کے بجائے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجیے وَشَاوِرْ ھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ اس آیت سے ثابت ہوا کہ جمہوریت باطل ہے۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اے نبی آپ صحابہ سے مشورہ کریں لیکن جب آپ عزم کرلیں تب آپ اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ پھر آپ مشورہ دینے والوں پر بھروسہ نہ کریں، آپ خدا پر بھروسہ کیجیے اس سے معلوم ------------------------------