خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
بسا ہے اب تو نگاہوں میں بس جمال ترا حجاب غیر کو دل سےاٹھا دیا میں نے مجھے بھی اپنا بنا لیجیے بہ فیضِ کرم کہ اب تو آپ کو اپنا بنا لیا میں نے نظر میں ہیچ ہے اب جوش و مستی صہبا وہ جام غم میرے دل کو پلا دیا تو نے۸؍شوال ۱۳۸۹ھ مطابق ۱۹؍دسمبر ۱۹۶۹ء حسنِ مجازی کی مثال چاندکے عکس سے ارشاد فرمایا کہ حسنِ مجازی در اصل خزانۂ حسنِ نور حقیقی کی ایک شعاع عکس ہے۔جو عکس کے پیچھے بھاگے گا وہ اصل سے دور ہوتا جائے گا۔ جیسے چاند کا عکس ندی کے پانی میں پڑتا ہے تو جو شخص عکس پر عاشق ہو جائے گا اور پانی میں چاند کو ڈھونڈے گا تو چاند سے اور دور ہو جائے گا اور کچھ ہاتھ بھی نہ آئے گا سوائے مٹی اور کیچڑ کے، کیوں کہ چاند تو بلندی پر ہے اور عکس پستی میں۔ اگر چاند کو حاصل کرنا ہے تو عکس سے رخ موڑ کر سمت مخالف کی طرف رجوع کرنا پڑے گا نظر کو بلند کرنا پڑے گا ورنہ عکس کی طرف متوجہ رہا تو چاند سے بھی محروم رہا اور آخر میں ندامت کے سوا کچھ نہ ملے گا ۔یہی حال حسنِ مجازی کے عاشقین کا ہے کہ آج جن کمان ابرو اور تیرِ مژگاں پر فریفتہ ہو رہے ہیں اور شاعر جن پر غزلیات تیار کر رہے ہیں کل زوالِ حُسن کے بعد ان کی تیرِ مژگاں کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھنے کودل نہیں چاہتا۔ آنکھیں اب بھی وہی ہیں ابرو اور مژگاں بھی وہی ہیں پس اگر وہ حسن کسی کا ذاتی تھا تو اب کہاں چلا گیا! بات یہ تھی کہ یہ عکس پر فریفتہ ہو رہے تھے، مرکز حُسن حقیقی کی ایک شعاع مٹی پر پڑ رہی تھی جس نے مٹی کو حسین بنا دیا تھا تاکہ بندوں کو آزمائیں کہ کون مٹی پر عاشق ہوتا ہے اور کون وحی الٰہی کی اطاعت کرتا ہے۔ مرکز سے وہ شعاعِ حُسن ہٹالی گئی حُسنِ مجازی کا زوال ہو گیا۔ اب معرِّف ( تعریف کرنے