خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
ارشاد فرمایا کہ کیا اﷲ کے سامنے یہ عذ ر چل سکتا ہے کہ صاحب ہمیں خبر ہی نہ تھی؟ کیا اتنی خبر آپ کو نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ موجود ہیں؟ پھر اگر دل میں تڑپ ہو اور آخرت پر یقین ہو اور اﷲ کی عظمت دل میں ہو تو آدمی خود تلاش کرتا پھرے ۔جس چیز کو ہم اپنے لیے نفع بخش خیال کرتے ہیں اس کے لیے کیسی کیسی محنتیں کرتے ہیں۔ آپ جو یہ کتابیں لیے پھرتے ہیں تو کیوں؟ اسی لیے تو کہ آپ سمجھتے ہیں کہ میں نے ایم اے کر لیا تو زندگی سنور جائے گی۔ اس لیے دن رات محنت کرتے ہیں ،دماغ کھپاتے ہیں اور جو اس مضمونِ صنعت کا ماہر ہے اس کی خدمت میں لگتے ہیں اور اس سے سیکھتے ہیں۔اسی طرح اگر اﷲ کی طلب ہے توکچھ محنت کرنی پڑے گی، کچھ وقت نکالنا پڑے گا اور دین کو بھی کسی دین والے سے سیکھنا پڑے گا۔ میاں! وجہ یہ ہے کہ دنیا کی فکر ہے آخرت کی فکر نہیں۔ اگر یہ فکر پیدا ہوجائے تو خود عقل آجائے گی کہ آخرت کیسے بنتی ہے ،خود تدبیریں سوچو گے جیسے دنیا کی عقل آگئی ہے۔ سمندر کسی نے نہ دیکھا ہو لیکن سن لیا ہے کہ سمندر ہے تو طالب خود تلاش کرتا ہے، اپنے قدم اٹھا کر بس تک لے گیا ٹکٹ خریدے گا بس کا نمبر معلوم کرے گا۔ تو سمندر کے لیے خود اتنی محنت کی ،دین کے لیے چاہتے ہیں کہ کچھ محنت نہ کرنی پڑے۔ حالاں کہ دنیا کا حاصل کرنا مشکل ہے، دین کا حصول آسان ہے، نماز میں ایک سجدہ کرنے میں کیا محنت کرنی پڑتی ہے؟ ساری زمین مسجد بنادی گئی کہ جہاں چاہو سجدہ کرو اور سلطنت کا لطف حاصل کرو،یہ سلطنت عام کر دی گئی، لیکن ہم پھر بھی دین کو ہوّا سمجھتے ہیں اور دنیا کے لیے ماہرین فنون کے پاس بھاگے پھرتے ہیں روزانہ یا ہفتہ یا مہینہ میں، کسی دن اﷲ کو حاصل کرنے کے لیے کسی اﷲ والے کے پاس جانے کی توفیق نہیں ہوتی۔حزن و غم بھی رحمت و شفقت ہے پھر فرمایا کہ بیماری اس لیے نہیں دی جاتی کہ تم پلنگ پر پڑ جاؤ یا پریشان ہو جاؤ کیوں کہ اﷲ تعالیٰ ظالم نہیں ہیں۔ فرماتے ہیں: لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا ؎ ------------------------------