خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
۱۸؍ شعبان المعظم ۱۴۱۵ھ مطابق ۲۰؍ جنوری ۱۹۹۵ بروز جمعۃ المبارک،بوقت دوپہر، ڈربن (جنوبی افریقہ) ہدیہ کے بعض آداب (ایک صاحبِ ثروت جو حضرتِ والا سے اصلاح کا تعلق تو نہیں رکھتے تھے لیکن محبت رکھتے تھے جنوبی افریقہ کے سفر میں ساتھ ہوگئے۔ ڈربن میں وہ بازار گئے اور کچھ سامان خریدا اور میزبان نے قیمت ادا کر دی اور ان صاحب نے انکار نہیں کیا اور خاموشی سے قبول کر لیا۔ حضرتِ والا کو اطلاع ہوئی تو مندرجہ ذیل نصائح ارشاد فرمائے۔جامع) ارشاد فرمایا کہ جو دوست بھی میرے ساتھ چل رہا ہے وہ مجھ سے اس کی اجازت لے کہ آپ کے ساتھیوں کو ہدیہ دینا چاہتاہوں۔ میری اجازت کے بغیر کوئی کسی ساتھی کو ہدیہ نہ دے اور نہ میرا کوئی ساتھی بغیر میری اجازت کے ہدیہ لے۔ اگر میرے ساتھیوں میں سے کسی کو ہدیہ دینا ہے تو پہلے مجھ سے اجازت لیں اور میرے ساتھی بھی مجھ سے اجازت لیں کہ کیا میں قبول کر لوں۔ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ مجھے اپنے ساتھ ایک جج صاحب کے ہاں لے گئے جب میری عمر اٹھارہ برس کی تھی اور فرمایا کہ میں یہاں مہمان ہوں۔ میں نے کہا کہ حضرت آپ مہمان ہیں، میں تو مہمان نہیں ہوں، میں طفیلی بن کر کھانا نہیں کھانا چاہتا، میں نے آپ سے اﷲ کے لیے تعلق کیا ہے، دنیا کے مال اور دسترخوان پر مرغی اڑانے کے لیے نہیں کیا ہے۔ لہٰذا میں ہوٹل میں کھانا کھا کر ابھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتا ہوں۔ میری اس بات سے شیخ کو وجد آگیا۔ فرمایا شاباش! حالاں کہ حضرت سے یہ میری پہلی ملاقات تھی اور میری اٹھارہ برس کی جوانی تھی۔ پھر فرمایا اچھا! ٹھہر جاؤ۔ اور جج صاحب سے الگ لے جا کر کہا کہ ان سے دعوت کی درخواست کرو۔ جج عبدالجلیل صاحب حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مجازِ صحبت تھے۔ انہوں نے مجھ سے بڑی لجاجت سے کہا کہ آپ دعوت قبول کر لیجیے۔ میں نے کہا کہ میں آپ کی دعوت ہر گز قبول نہیں کرسکتا جب تک میں اپنے شیخ سے اجازت نہ لے لوں۔ میں نے