خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
نفس کا مزاج دوزخ کا سا ہے دوزخ میں سارے دوزخی ڈال کے اﷲ پوچھے گا کہ تیرا پیٹ بھر گیا؟ھَلِ امْتَلَئْتِ وہ کہے گی ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ اے اﷲ!کیا اور بھی کچھ مال ہے؟ اﷲتعالیٰ بے گناہوں کو دوزخ میں تھوڑی ڈالیں گے لہٰذا دوزخ پر اپنا قدم رکھیں گے یعنی اپنی ایک خاص تجلی نازل کریں گے تب دوزخ کہے گی قَطْ قَطْ قَطْ وَفِیْ رِوَایَۃٍ قَطْ قَطْ؎ یعنی بس بس بس اے خدا! میرا پیٹ بھر گیا۔ ایک روایت میں دو دفعہ ہے اور ایک روایت میں تین دفعہ ہے۔ علامہ قسطلانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ خدا تو جسم سے پاک ہے وہ دوزخ پر اپنا قدم کیسے رکھیں گے؟ لیکن حدیثِ پاک میں ہے فَلَمَّا یَضَعُ قَدَمَہٗ جب اﷲ اپنا قدم رکھے گا تب دوزخ کا پیٹ بھرے گا تو علامہ قسطلانی فرماتے ہیں کہ یہاں قدم سے مراد خاص تجلّی ہے؎ایسے ہی جب انسان اﷲ والوں کے پاس رہتا ہے، اﷲاﷲ کرتا ہے تو اس کے نفس پر اﷲ تعالیٰ کی تجلی بِبَرَکَۃِ ذِکْرِ اللہِ نازل ہوتی ہے پھر اس کے نفس کا پیٹ بھر جاتا ہے، پھر گناہ کے تقاضے مغلوب ہوجاتے ہیں۔ اس پر اختر کا شعر ہے ؎ وہ مالک ہے جہاں چاہے تجلی اپنی دکھلائے نہیں مخصوص ہے اس کی تجلی طورِ سینا سے حکیم الامّت نے فرمایا کہ ساری دنیا کی حسینوں سے کوئی بدنظری کرلے پھر اس کے کان میں کوئی کہے کہ ابھی ایک حسین باقی ہے تو وہ کہے گا کہ وہ بھی دکھا دو۔ تو نفس کا مزاج یہ ہے۔ نفس کی خواہش قبر کی مٹی ہی ختم کرے گی۔ جب مٹی میں دفن کیا جائے گا تو مٹی ہی اس کا پیٹ بھرے گی، لیکن اﷲ والوں کا مزاج دنیا ہی میں اﷲ کی تجلیات اور اﷲ کے انوار وبرکات سے بدل جاتا ہے ؎ اُف کتنا ہے تاریک گناہ گار کا عالم انوار سے معمور ہے ابرار کا عالم ------------------------------