خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
یاذوق و داغ کا کلام ہے، شاعری کے اعتبار سے نہایت بلند ہے، پھر احقر سے فرمایا کہ ؎ کہاں تک پاسِ بدنامی کہاں تک ضبطِ بے تابی کلیجہ تھام لو یارو کہ ہم فریاد کرتے ہیں احقر سے فرمایا کہ بس بے جھجک ہوکر سناؤ۔ پھر جب احقر نے چند اشعار سنائے تو حضرتِ والا نے اپنے کرم سے بہت زیادہ پسند فرمائے اور مندرجہ بالا الفاظ پھر دہرائے۔ اور ہنس کر اور جھوم جھوم کر حضرتِ والا سن رہے تھے۔ ایک رئیس نے مزاح میں احقر کے لیے کچھ نامناسب الفاظ ازراہ مزاح کہہ دیے تو حضرتِ والا نے فرمایا کہ آپ نے تہذیب سے گری ہوئی بات کی،آپ کو ایسے الفاظ نہ کہنے چاہیے تھے، جو خود چور ہوتا ہے وہ دوسروں کو بھی چورسمجھتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا دل چور ہے اس لیے آپ ان (احقر) کو ایسا سمجھ رہے ہیں۔ پھر جب وہ صاحب چلے گئے تو احقر سے فرمایا کہ آج ان صاحب کو معلوم ہوگیا کہ مولوی ایسے بھی ہیں جو رئیسوں کو جھاڑ دیتے ہیں، میرے جملے ان کے دل میں چبھ رہے ہوں گے، غرض میں نے ان سے انتقام لے لیا کہ میرے عشرت کو اس نے ایسا کیوں کہا اور پھر دوسروں سے مخاطب ہوکر احقر کے لیے فرمایا کہ ایک عالم کے ساتھ انہیں ایسا مزاح نہ کرنا چاہیے تھا۔ حضرتِ والا کا اس ناکارہ پر اس قدر کرم ہے کہ احقر اس نعمت پر اگر عمر بھر اللہ کے حضو رسجدہ میں پڑا رہے تو شکر ادا نہیں کرسکتا۔قرآن کی حفاظت کا وعدہ حفاظِ کرام کی حفاظت کو مستلزم ہے ارشاد فرمایا کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ؎ میں ہٗ کی ضمیر قرآن کی طرف ہے، لیکن قرآن کی حفاظت بذریعۂ افراد ہوگی۔پس جب قرآن کی حفاظت افراد پر موقوف ہے تو لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ میں قرآن والوں کی حفاظت بھی آگئی۔یعنی جب اس قرآن کو محفوظ رکھنا ہے تو جن افراد کے سینوں میں یہ قرآن ہے ان افراد کی حفاظت کا بھی وعدہ ہورہا ہے کیوں کہ بغیر افراد کی حفاظت کے قرآن کی حفاظت ممکن نہیں۔ ------------------------------