خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
۱۳؍ ربیع الاوّل 13۹۱ھ مطابق ۹؍ مئی ۱۹۷۱ء ارشادات بوقت طعام، بارہ بجے دوپہر لذّاتِ دنیویہ کے قلیل المیعاداور لذّاتِ روحانیہ کےطویل المیعاد ہونے کی حکمت ارشاد فرمایا کہ اﷲ نے حلق کی گزرگاہ پر تاروں کا جال بچھا دیا ہے جو اس راہ گزر پر گزرنے والے یعنی لقمہ کی ساری لذّت کو چوس ڈالتا ہے لیکن یہ لذت کشی کی قوت صرف زبان سے حلق کے آخر تک ہے۔ غذا جب معدہ میں پہنچ گئی تو لذّت کا احساس بھی فنا ہو جاتا ہے۔ ورنہ وہ اﷲ جس نے زبان و حلق میں لذّت کے یہ تار بچھا دیے وہ اس بات پر بھی قادر تھا کہ معدہ میں بھی اعصاب کی رگوں کے تار بچھا دیتا جس سے سارے دن کھانے کی لذت کا احساس ہوتا رہتا لیکن اﷲ نے ایسا نہیں کیا۔ کیوں؟ کیوں کہ یہ لذتیں مقصود نہیں ہیں، اس لیے دنیا کی ہر لذت قلیل المیعاد ہے ۔جو لذت جتنی الذ ہے ا تنی ہی زیادہ قلیل المیعاد ہے۔ یہ اﷲ کی حکمت ہے ورنہ اگر اﷲ تعالیٰ لذات دنیویہ کی میعاد کو طویل کر دیتا تو بندے ان ہی میں ہمہ وقت منہمک رہتے اور اﷲ کی طرف توجہ ہی نہیں ہوتی۔ غرض دنیا کی تمام لذتوں کو قلیل المیعاد اور مختصر کر دیا اور اپنی لذت کو طویل المیعاد بلکہ دائمی کر دیا جس پر کبھی زوال نہیں آتا۔ جب بندہ ذکرکرتا ہے نماز پڑھتا ہے روزہ رکھتا ہے تو کیا اﷲ کے نام کی لذت ان اعمال کے دوران ہی رہتی ہے؟ ذکر و نماز و روزہ کے بعد بھی کیف و سرور میں کوئی کمی نہیں آتی بلکہ روح میں ہر روز کیف بڑھتاجاتا ہے۔ ذکر و نماز وغیرہ کے درمیان جو لذت ملتی ہے وہ تو الگ ہے ہی لیکن ان اعمال کے ختم ہو نے کے بعد بھی چوبیس گھنٹہ روح سرور کا ادراک کر تی ہے اور ہر روز اس سرور میں اضافہ ہو تا جاتا ہے یہاں تک کہ ان طاعتوں کے انوار و لذات کو ساتھ لے کر روح اپنے رب کے پاس جاتی ہے اور صرف یہی لذت ایسی دائمی ہے جو قبر میں، بر زخ میں، حشر میں،جنّت میں ہر جگہ باقی رہتی ہے اور جس میں کبھی اور کہیں زوال نہیں آتا۔