خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
۲۵؍ ربیع الاوّل ۱۳۸۹ھ مطابق ۱۱؍ جون 1۹6۹ ء صحبت یافتہ اہل اﷲ کو دنیائے حقیر کا غم نہیں ہو تا ارشاد فرمایا کہ اہلِ دنیا اﷲ والے کو دیکھ کر ترس کھاتے ہیں کہ بے چارے کے پاس بنگلہ نہیں ہے کار نہیں ہے، ظاہری حالت کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ تکلیف میں ہے، اور اﷲ والا اہلِ دنیا پر ترس کھاتا ہے کہ تمہارے پاس سکون نہیں ہے۔ اﷲ والا بغیر ایکسرے کے ان کے دل کی بے چینی دیکھتا ہے جیسے ایکسرے میں زخم نظر آجاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل سے لوگوں کے دلوں کا حال مجھ پر خوب کھول دیا ہے ۔ تم اسباب سکون اختیار کر تے ہو اور بے چین ہو ۔ہمارے پاس اسباب سکون نہیں لیکن دل سکون سے ہے، کیوں کہ دل کی غذا صرف اﷲ کی یاد ہے اگر کسی اﷲ والے کے سامنے کوئی اس پر ترس کھائے کہ آپ کی حالت پر بڑا افسوس ہے اگر اس وقت وہ سکوت اختیار کر تا ہے تو وہ اﷲ والا نہیں ہے۔ اگر یوں کہتا ہے کہ ہاں دعا کریں کہ اﷲ مجھے بھی کار اور بنگلہ دے دے تو بالکل دنیادار ہے ،لیکن اگر سکوت بھی اختیار کر تا ہے تو میں سمجھوں گا کہ بالکل خالی ہے، اس کے اندر کچھ ہے نہیں۔ اسے تو یوں کہنا چاہیے تھا کہ تمہیں کیا معلوم کہ میرے اﷲ نے میرے دل کو کیا کیا نعمتیں دے رکھی ہیں ؎ رخ زرین من مَنِگر کہ پائے آہنیں دارم تو می دانی کہ در باطن چہ شاہ ہمنشیں دارم میرے پیلے چہرے کو مت دیکھ کہ لوہے کے پیر رکھتا ہوں، تو کیا جانے کہ میرے دل میں کیسا شاہ ہمنشین ہے ۔ اس لیے یہ مت سمجھنا کہ آج حضرت کا چہرہ کچھ پیلا معلوم ہو رہا ہے کوئی غم ہو گا۔ انہیں کوئی غم نہیں ہو تا سوائے اﷲ کے غم کے۔ کسی رئیس کو اگر کوئی مفلس کہہ دے تو اس کو کتنا جوش آئے گا، کہے گا تجھے کیا معلوم میرے پاس کتنی دولت ہے۔اپنے ان مسلمان بھائیو ں کے دکھ کی وجہ سے ان پر ترس آتا ہے جن کے دل سکون سے محروم ہیں۔ دو صاحب میرے پاس کاروں میں آتے ہیں دو دو ملیں چل رہی ہیں لیکن کہہ رہے تھے کہ دعا کیجیے خود کشی کی نوبت ہے ۔ کیوں صاحب کروڑوں روپیہ پاس ہے اگر