خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
۱۶؍ رمضان المبارک ۱۳۹۴ھ مطابق ۳؍ اکتوبر ۱۹۷۴ء برمکان حاجی گلو صاحب، حیدرآباد ایک علمِ عظیم ارشاد فرمایا کہ اَ لَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ؎ میں اٰمَنُوْا میں تو ماضی کا صیغہ استعمال فرمایا اور وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ میں مضارع لائے، اور مضارع میں خاصیت تجدد استمراری کی ہے۔ معلوم ہوا کہ کیوں کہ ایمان صرف ایک بار ہی لانا ہوتا ہے اس لیے ماضی سے بیان کردیا لیکن تقویٰ کی محنتیں کیوں کہ عمر بھر کرنی ہیں اور تقویٰ کے اہتمام کا تسلسل پوری زندگی جاری رکھنا ہے اس لیے مضارع کا صیغہ استعمال فرمایا تاکہ معلوم ہو کہ تقویٰ اور ولایت ایک ایسا عمل ہے جو آخری سانس تک جاری رہے گا اور عمر بھر حق تعالیٰ کے ساتھ اس رشتہ ولایت کی تجدید کرنی پڑے گی۔ کبھی گناہوں سے یہ رشتہ ٹوٹ جائے گا یا کمزور ہوجائے گا تو اب سجدہ میں گرا ہوا آنسو بہارہا ہے، گڑگڑا رہا ہے کہ یا اﷲ معاف فرمادیجیے۔یہ کیا ہے؟ یہی تجدید رشتہ ولایت مع الحق ہے اور یہ جھگڑا زندگی بھر کا ہے عمر بھر اس تراش خراش میں لگا رہنا ہے اس لیے وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ میں مضارع سے یہ بتادیا کہ عمر بھر تقویٰ کا اہتمام اور محنت کرنا پڑے گی اور مضارع حال اور استقبال دونوں کے معنیٰ رکھتا ہے جس سے معلوم ہوا کہ حال میں تقویٰ کا اہتمام ضروری ہے اور مستقبل میں بھی ایسا نہ ہو کہ مستقبل میں تقویٰ کا اہتمام چھوڑدو بلکہ یہ محنت عمر بھر کرنی پڑے گی۔ موجودہ زمانے میں بھی تقویٰ کا اہتمام رکھنا اور خیال رکھنا کہ آیندہ بھی تقویٰ ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ حال و استقبال مضارع میں ہوتا ہے۔ ------------------------------