خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
کا جواب دیتے ہیں کہ جو اعضاء تکلیف پہنچانے میں کثرت سے استعمال ہوتے ہیں وہ دو ہیں زبان اور ہاتھ، لات کی نوبت تو بہت کم آتی ہے تو جب زیادہ استعمال ہونے والے اعضاء کی حفاظت کی مشق ہوجائے گی تو لات کی تو نوبت ہی نہیں آئے گی، اس کو قابو کرنا بالکل آسان ہوجائے گا۔ علامہ ایک اِشکال اور کرتے ہیں کہ زبان سے تکلیف ہوتی ہے یا زبان کے الفاظ سے تکلیف ہوتی ہے، زبان میں تو ہڈی بھی نہیں ہے، وہ تو ملائم گوشت کا ٹکڑا ہے۔ اگر آپ غصے میں اپنی بیوی کے گال پر زبان کو زور سے رگڑیں تو کیا وہ کہے گی کہ ہائے میں مرگئی؟ اسی لیے علامہ بدر الدین عینی فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے یہ کیوں نہیں فرمایا اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ اَلْفَاظِ لِسَانِہٖیعنی مسلمان وہ ہے جس کے الفاظ سے لوگوں کو اذیت نہ پہنچے، زبان بے چاری کیا تکلیف پہنچائے گی۔ علامہ بدر الدین عینی اس کا جواب دیتے ہیں کہ بعض وقت بغیر الفاظ کے بھی زبان سے تکلیف دی جاسکتی ہے۔ حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کوعلمِ نبوت میں کمالِ بلاغت دیا گیا تھا، آپ نے لِسَانْ اس لیے فرمایا تاکہ اس میں وہ لوگ بھی داخل ہوجائیں لِیَشْمُلَ اِخْرَاجُہٗ اِسْتِھْزَاءً بِغَیْرِ؎ جو کسی کا مذاق اُڑانے کے لیے زبان کو باہر نکالتے ہیں اور ہلا کر بھاگ جاتے ہیں، اس میں کوئی لفظ بھی نہیں نکلتا، بچے اکثر ایسا کرتے ہیں، جب دیکھتے ہیں کہ پٹائی ہو رہی ہے اور بدلہ نہیں لے سکتے تو بچے زبان نکال کر، منہ چڑا کر بھاگ جاتے ہیں اور بعضے بڑے بھی ایسا کرتے ہیں تو علامہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲعلیہ وسلم نے مِنْ لِّسَانِہٖ اس لیے فرمایا تاکہ وہ ظالم، وہ موذی، وہ تکلیف دینے والے بھی اس حدیث میں شامل ہوجائیں جو زبان کو نکال کر ہلاکر مذاق اڑادیتے ہیں اور بولتے کچھ نہیں ۔مخلوق پر احسان کرنا اچھے اخلاق کی نشانی ہے شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اپنے ایک ملازم کو ڈانٹ رہے ------------------------------