خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
کریں قبل اس کے کہ آنسو خون ہو جائیں اور داڑھیں انگارے ہو جائیں۔ (اور آنکھیں کب روتی ہیں جب دل روتا ہے ) آنکھیں جاری ہو گئیں یعنی آنسو جاری ہو گئے، جیسے کہتے ہیں نہر جاری ہو گئی یعنی پانی جاری ہو گیا، لیکن ایک عمر رونے والوں کے پاس رہنے سے رونے والی آنکھیں نصیب ہو تی ہیں، مولانا رومی فرماتے ہیں ؎ اسپ با اسپاں یقیں خوش تر رود اسپ سے مراد یہاں اہل اﷲ ہیں ۔کسی کو رونا نہ آئے تو رونے کا سا منہ ہی بنا لے یہ بھی رونے کا قائم مقام ہے، کیوں کہ دل روتا ہے رونا نہ آنے کے افسوس سے۔رونا کوئی اختیاری بات تو ہے نہیں، ان کے بھی اختیار میں نہیں جو بہت روتے ہیں ،یہ تھوڑی ہے کہ جب چاہیں رونے لگیں۔البتہ آخر میں تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آنسو بھی اختیاری ہو گئے۔ جہاں اﷲ کا ذکر شروع کیا آنکھیں ایک بار ذرا جھپکائیں بس فوراً آنسو نکل پڑتے تھے ۔اﷲ کو وہی آنسو پسند ہیں جو ان کی محبت میں نکلیں، پیاز کے آنسو نہیں ہو نا چاہئیں۔ جیسے ایک سپاہی تھا اس نے اپنی آنکھوں میں پیاز لگا لی اور روتا ہوا افسرکے پاس گیا کہ میری ماں مر گئی چھٹی دے دی جائے انگریز افسر تھا فوراً چھٹی دے دی۔لیکن پیازی آنسوؤں کی اﷲکے یہاں قدر نہیں ہے، دل میں درد پیدا کرو۔آیت ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ الٰخ کی الہامی تفسیر ارشاد فرمایا کہ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ اور ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ؎ کی مولانا تھانوی نے عجیب تفسیر فرمائی ہے۔ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ کے لفظی معنیٰ ہیں کہ اس کتاب میں کوئی شک نہیں۔ اس پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ کافر تو اس میں شک کر تے ہیں تو اس آیت کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کرتا بلکہ مولانا نے اس کا ترجمہ یوں فرمایا کہ یہ کتاب شک کے قابل نہیں ہے۔ یعنی اس کی شان کے منافی ہے کہ اس پر شک کیا جائے بلکہ یہ شک و شبہ سے بالا تر ہے ۔ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کا ترجمہ و تفسیر بیان القرآن میں یہ ہے : ’’راہ بتلانے والی ہے خدا سے ڈرنے ------------------------------