خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
ان بزرگ صاحب نے عرض کیا کہ میں نے نابالغی کے زمانے میں حضرت جلال آبادی سے بیعت کی درخواست کی تو فرمایا کہ اپنے والد صاحب کی اجازت لکھوا کر بھیجو تب بیعت کروں گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ نابالغ کو اس کے والد یا سرپرست کی اجازت کے بغیر بیعت نہ کرنا چاہیے۔۲۰؍ ذوقعدہ ۱۳۹۴ھ مطابق۵؍ دسمبر ۱۹۷۴ء ،بعد عشاء طالب کا وسوسہ کہ شیخ کو مجھ سے تکدر ہے خود مانع فیض ہے احقر کو یہ شیطانی وسوسہ تھا کہ خدانخواستہ العیاذ باﷲ حضرتِ والا کو احقر سے تعلق کم ہوگیا ہے (اے اﷲ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں ہمیشہ حفاظت فرمائیے اور حضرتِ والا کو ہمیشہ ہمیشہ احقر سے انتہائی خوش اور راضی رکھیے۔) احقر نے عرض کیا کہ احقر سے شاید حضرتِ والا کو تکدر ہے۔ احقر کے قلب کی حالت بہت خراب ہوگئی ہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حضرتِ اقدس کا فیض بالکل بند ہوگیا اور قلب بے نور معلوم ہورہا ہے۔ نہایت شفقت اور محبت کے لہجہ میں فرمایا کہ شیطان آپ کو پریشان کررہا ہے وہ چاہتا ہے کہ اس کے دل کو تکلیف پہنچے۔ میں تو آپ سے بالکل خوش ہوں پہلے کی طرح۔ احقر نے عرض کیا کہ لیکن میرے قلب کی حالت کیوں خراب ہے؟ فرمایا کہ یہ گمان کہ شیخ مجھ سے ناراض ہے یا پہلا سا تعلق نہیں رہا یہ گمان خود مانع فیض ہے۔ احقر نے عرض کیا کہ طالب کے گمان سے کیا واقعی فیض رک جاتا ہے یا طالب کو محسوس نہیں ہوتا؟ فرمایا کہ شیخ کی طرف سے تو فیضان جاری رہتا ہے لیکن جب طالب نے اپنے قلب کا منہ ہی بند کرلیا تو فیض کیسے پہنچے گا۔ جیسے لوٹے سے تو پانی جاری ہو لیکن برتن پر کوئی ڈھکن چڑھادے تو پانی کیسے اندر پہنچے گا۔ یا دریا تو قطرے ٹپکارہا ہے اور فیضان جاری ہے لیکن اگر سیپ ہی منہ بند کرلے تو دریا کا کیا قصور ہے۔ بس طالب کا گمان فیض شیخ کے لیے حجاب بن جاتا ہے۔محرومی کا سبب بدگمانی ہے حیدرآباد میں ایک صاحب نے حضرتِ والا کی تشریف آوری پر بجائے تعریف کے اعتراض کیا تو دوران گفتگو فرمایا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں تو فلاں