خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
یہ دنیا دار اﷲ کے عشق سے محروم ہیں۔ دردِ عشق تو ان کو ہی عطا ہوتا ہے جو پروانوں کی طرح خود کو، اپنے ارادوں کو، گناہ کے تقاضوں کو، رضائے الٰہی کی شمع پر جلا کر خاکستر کررہے ہیں،اپنی خواہشات کو مرضیاتِ الٰہیہ میں فنا کردیتے ہیں، نافرمانیوں کے قریب بھی نہیں جاتے۔ کبھی کسی پروانے کو غلاظت کے قریب جاتے ہوئے دیکھا ہے؟ ؎ سرمد گلہ اختصار می باید کرد یک کار ازیں دوکار می باید کرد یا تن بہ رضائے دوست می باید داد یا قطع نظر ز یار می باید کرد فرماتے ہیں کہ اے سرمد شکایت کو مختصر کرو اور ان دو کاموں میں سے ایک کام کرو یا تو اپنے جسم کو رضائے دوست کے حوالے کردو یعنی احکامِ جسم کو رضائے الٰہی کے تابع کردو یا پھر دوست سے ہی نظر اٹھا لو یعنی یا تو اپنی خواہشاتِ نفسانیہ کو مرضیاتِ الٰہیہ میں فنا کردو اگر ایسا نہیں کرسکتے تو سمجھ لو کہ اﷲ تعالیٰ بھی تمہیں نہ ملیں گے۔درسِ تسلیم و رضا بندے کو ہر حال میں راضی برضا رہنا چاہیے۔ حالات موافق ہوں شکر ادا کرو کہ اے اﷲ!میں اس قابل نہ تھا میری نا اہلیت کے باوجود آپ نے اپنا فضل فرمایا، اور حالات مخالف ہوں تو اور یقین رکھو کہ اس میں ہی تمہاری کوئی مصلحت ہے البتہ اپنی حاجت کے لیے گریہ و زاری کرتے رہو، مانگتے رہو۔ شکایت کا کوئی لفظ زبان پر نہ آئے نہ دل میں کوئی غلط خیال رہے، مثلاً کسی کی شادی نہیں ہوتی تو یوں سوچنے لگے کہ اگر ہمارے پاس مال و دولت ہوتی تو ہماری بھی شادی ہوجاتی۔ خوب سمجھ لو کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ ربّ العالمین ہیں پوری کائنات اور کائنات کا ہر ذرّہ اس کی زیرِ ربوبیت ہے۔ امیر ان کی ربوبیت سے خارج نہیں۔ اگر امیروں کو آرام میں دیکھتے ہو تو وہ بھی ان کی ربوبیت کی ایک شان ہے، ان کا یہ آرام روپیہ پیسہ کی وجہ سے نہیں ہے۔ مال میں یہ اثر نہیں ہے کہ ان کی خواہشات کو پورا کردے۔ جس کو چاہتے ہیں جس حال میں رکھتے ہیں۔